مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات پر حملوں کے بچاؤ کے لیے، ایران نے عراق کے شیعہ ساتھیوں کو بیلسٹک میزائل فراہم کر دیے ہیں اور وہاں مزید میزائل تیار کرنے کی استعداد حاصل کر رہا ہے، تاکہ علاقائی دشمنوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔ یہ بات ایرانی، عراقی اور مغربی ذرائع نے بتائی ہے۔
اہلکار کہتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ بھڑک اٹھے گا اگر اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ایران عراق میں میزائل سے متعلق جارحانہ پالیسی تیار کر رہا ہے؛ ایسے میں جب 2015ء کے جوہری معاہدے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نکلنے کے فیصلے پر عالمی طاقتیں پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔
اس سے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کو بھی مایوسی ہوگی، جن تینوں ملکوں نے جوہری معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں، جو اس بات کے کوشاں رہے ہیں کہ ایران کے خلاف نئی امریکی تعزیرات کے باجود سمجھوتے کو بچایا جانا چاہیئے۔
تین ایرانی اہلکاروں کے مطابق، جن میں سے دو کا عراقی خفیہ اداروں اور ایک کا مغربی انٹیلی جنس ذرائع سے تعلق ہے، بتایا ہے کہ ایران نے گذشتہ چند ماہ کے دوران مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل عراق میں اپنے اتحادیوں کو منتقل کیے ہیں۔ پانچوں اہلکاروں نے کہا ہے کہ وہ ان گروپوں کی مدد کر رہا ہے، تاکہ وہ اپنے ہتھیار بنا سکیں۔
ایک اعلیٰ ایرانی اہلکار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’’غرض یہ ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو کوئی متبادل موجود ہونا چاہیئے۔ میزائل کی تعداد زیادہ نہیں، بس چند درجن بھر ہیں۔ لیکن، ضرورت پڑنے پر اِن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
اِس سے قبل ایران نے کہا تھا کہ اُس کی بیلسٹک میزائل سے متعلق سرگرمیاں صرف دفاعی نوعیت کی ہیں۔ جب ایرانی اہلکاروں سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے اس پر بیان دینے سے احتراز کیا۔
ایرانی حکومت اور فوج دونوں ہی نے رد عمل ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
ایران نے زلزال، فتح 110 اور ذوالفقار میزائل تیار کرلیے ہیں جو 200 سے 700 کلومیٹر دور تک مار کر سکتے ہیں، جس سے سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اور اسرائیل کا شہر تل ابیب حملے کی پہنچ میں آسکتا ہے، اگر یہ ہتھیار عراق کے جنوب یا مشرق میں نصب کیے جاتے ہیں۔
تین ذرائع کے مطابق، القدس ایران کا پاسداران انقلاب اسلامی وہ طاقتور دستہ ہے جو بیرون ملک شاخ کا حصہ ہے، جس کے اِن علاقوں میں اڈے قائم ہیں۔ اس پروگرام کی نگرانی قدس فورس کے کمانڈر، قاسم سلیمانی کرتے ہیں۔