’کرکوک کی کشیدگی میں ایران کا مفاد ہے‘

عراقی فوجی کرکوک میں داخل ہوتے وقت خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ایران،عراق اور شام کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے داعش کے خلاف لڑائی میں مدد کر چکا ہے ۔ تاکہ وہ بحیرہ روم تک رسائی حاصل کر سکے۔

داعش کو شکست دینے کے لیے قائم امریکی قیادت کے اتحاد کا کہناہے کہ عراق اور شام میں مقامی فورسز نے ان علاقوں کا 87 فیصد حصہ واپس لے لیا ہے جس پر کبھی داعش کا قبضہ تھا۔ لیکن اب جب کہ عراق میں اس دہشت گرد گروپ کی شکست ناگزیر ہو گئی ہے ، عراقی اب اپنی توجہ ایک اور مزید پیچیدہ تنازعے پر مرکوز کرنا شروع کر رہے ہیں اور وہ ہے عراقی کردوں کی آزادی کی خواہش۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے دو قریبی اتحادیوں کے درمیان موجود یہ تنازعہ امریکہ کے ایک دشمن ملک ، ایران کو اپنے پڑوسی پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

کردوں کی اکثریت کا متنازع شہر کرکوک اب بظاہر عراقی سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں دکھائی دیتا ہے۔

کردوں کی جانب سے آزادی کے لیے ایک ریفرنڈم کی بھاری پیمانے پر منظوری کے بعد بغداد نے کرکوک میں وفاقی حکومت کا کنٹرول بڑھانے پر زور دیا تھا۔

امریکہ اس ہفتے انتقال اقتدار کے کشیدہ عمل میں شامل نہیں تھا اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس بارے میں وقت سے پہلے مطلع بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔

امریکی قیادت کے اتحاد کے ترجمان آرمی کرنل ریان ڈیلان نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ سرکاری عہدے داروں نے اس بارے میں کھلم کھلا بتایا تھا ۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا ایک اتحاد کے طور پر ہمیں 16 تاریخ سے پہلے اس بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔

اور جو کوئی اس بارے میں آگاہ تھا وہ ایرانی پشت پناہی کے حامل پالولر موبلائزیشن یونٹس کا ایک کمانڈر، ابو مہدی المہاندس تھا، جسے ایک ہلکے رنگ کے ہیٹ میں اس ویڈیو میں دیکھا گیا جو کرکوک میں عراق کے انسداد دہشت گردی کے شعبے نے عراقی فورسز کے وہاں داخل ہونے کے بعد بنائی تھی ۔

بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کےاسکالر مائیکل او ہنلن کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر ہمارے پاس یہ ظاہر کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم عراق میں اپنی خواہش کے مطابق ایران کا اثر و رسوخ ختم کر سکتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ایران،عراق اور شام کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے داعش کے خلاف لڑائی میں مدد کر چکا ہے ۔ ان امیدوں کے ساتھ کہ وہ تہران سے بحیرہ روم تک لوگوں اور رسدوں کی رسائی کے لیے محفوظ راستوں کا ایک زمینی پل تشکیل دے سکے گا۔

ایران کا اس وقت عراق میں اثر و رسوخ کا ایک راستہ ہے جو کرکوک کے مشرق سے لے کر شمال میں بغداد اور تل افر تک پھیلا ہوا ہے ۔ ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں کو استعمال کر کے تہران کرکوک میں کشیدگیوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اثر و رسوخ کا ایک نیا راستہ کھول سکتا ہے۔

بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل او ہنلن کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ایران یقینی طور پر بحیرہ روم تک آسان ترین اور مختصر ترین زمینی پل حاصل کرنا پسند کرے گا، لیکن میرے ذہن میں ایک اور تاثر یہ بھی ہے کہ ایران صرف ایک زمینی پل یا ایک زمینی راستے سے خوش نہیں ہو گا او ر وہ کئی راستے تلاش کرے گا۔

اب جب کہ امریکہ کے دو اتحادیوں کے درمیان شديد اختلافات ہیں، اور ایران ان سے اتنا قریب کہ وہ تنازعے پر ضمنی طریقوں سے اثر انداز ہو سکتا ہے، امریکہ کو یہ پتا چلانا ہو گا کہ وہ عراق میں ایران کے مستقبل کے اثر و رسوخ کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے۔