اختتام ِ ہفتہ کے دوران، ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے ملک میں انٹرنیٹ کی وسعت اور ترقی کی تعریف کی ۔انھوں نے ایسے اشارےبھی دیے کہ ان کی حکومت ورلڈ وائڈ ویب پر ایرانیوں کی رسائی پر حکومت کا کنٹرول بڑھانا چاہتی ہے ۔ انھوں نے کہا’’ ایران کو علم کے اپنے ملکی ذرائع کی بنیاد کو ترقی دینی چاہیئے اور اسے وسائل اور معلومات دوسروں تک پہنچانے کے لیے استعمال کرنا چاہیئے ۔ اس کے بعد ایران اس نیٹ ورک کو ہمسایہ ملکوں تک وسعت دے سکتا ہے اور یوں عالمی سطح پر معلومات فراہم کر سکتا ہے ۔‘‘
ایرانی ٹی وی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین سے بات کی جنھوں نے ایران کے اپنے انٹرنیٹ سرچ انجن کے نمونے کا مظاہرہ کیا۔ اس سرچ انجن کو" یا حق" کا نام دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ نام دینے والوں کے ذہن میں امریکی سرچ انجن Yahooکا نام تھا۔ توقع ہے کہ یہ نئی سائٹ 2012 تک پوری طرح کام کرنے لگے گی ۔
ایران کی سرکاری ٹیکنالوجی کمپنی کے ڈائریکٹر ، ہادی مالک پرست ، صدر احمدی نژاد کے خیالات کو ایک قدم اور آگے لے گئے ۔ انھوں نے ایران کی مہر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ان کے ریسرچرز ایک مقامی انٹرا نیٹ (intranet) کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جس کے ذریعے صرف سرکاری یا منظور شدہ ویب سائٹ تک ہی رسائی حاصل کی جا سکے گی۔
ایران کے سپریم لیڈرعلی خامنہ ای نے ایک حالیہ تقریر میں مغرب کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ایرانی نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ایک حالیہ تقریر میں ، جس کے اقتباسات ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر روزانہ نشر کیے جاتے ہیں، انھوں نے کہا’’ایران کے دشمنوں کی نظریں ہمارے نوجوانوں پر ہیں اور وہ انہیں گمراہ کرنے اور سچائی کی راہ چھوڑ کر بھٹک جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘
انٹرنیٹ کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایران کی اس پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہےکہ Yahoo اور Google اور انٹرنیٹ کی دوسری secure ویب سائٹس نوجوانوں کو آزادی سے ایسی معلومات فراہم کر رہی ہیں جن پر کنٹرول کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے ۔
تل ابیب میں MEEPAS سینٹر کے تجزیہ کار Meir Javedanfar کا خیال ہے کہ ایران Google یا Yahoo کو بلاک کرنے کے بجائے اپنے ملکی انٹرنیٹ پر دوبارہ اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔’’یہ سارا کھیل کنٹرول کا ہے ۔ میرے خیال میں ایرانی حکومت Google یا Yahoo کو سرچ انجنوں کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی لگانا نہیں چاہتی کیوں کہ اسے خود اپنی ریسرچ کے لیے، اور سرکاری کاروباری اداروں کے لیے ان کی ضرورت ہے ۔ایرانی حکومت کا مقصد یہ ہے کہ ان سرچ انجنوں کی مارکیٹ کے کچھ حصے کو ان سے نکال کراپنے انٹرنیٹ میں لے آیا جائے اور یوں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ایرانیوں کو وہ سائٹس دکھائی جائیں جو ایرانی حکومت انہیں دکھا نا چاہتی ہے ۔‘‘
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار Alex Vatanka کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے پریس کی سینسر شپ تو اسلامی ریپبلک کے قیام کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی ، لیکن حال ہی میں ، خاص طور سے متنازع صدارتی انتخاب کے بعد سے، اس میں بہت اضافہ ہو گیا ہے ۔’’ان کے خیال میں ایران میں آج کل سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ نوجوانوں تک معلومات آزادی سے پہنچ رہی ہیں ۔وہ دیکھ رہےہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کو ٹیکنالوجی پر کتنا عبور حاصل ہے اور وہ کتنے زیادہ مستعد، خواندہ اورنئی چیزیں سیکھنے کے مشتاق ہیں۔معلومات کے لیے، بحث مباحثوں کے لیے ان میں جو تڑپ پائی جاتی ہے، آج کی دنیا کے خامنہ ای اور احمدی نژاد اس کا گلا گھونٹے کے لیے معلومات کی آزادانہ فراہمی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن Vatanka کہتے ہیں کہ ایران کے لوگ ذہنی طور پر اتنے پختہ ہو چکے ہیں کہ حکومت کے ہتھکنڈے موئثر نہیں ہو سکتے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایران میں حکومت کے کنٹرول کا چینی ماڈل غالب آ جائے گا، شمالی کوریا کا ماڈل نہیں جس میں عوام کو تمام معلومات سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔