ایرانی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کی ناگفتہ بہ حالت

تہران کی بدنام جیل ایون میں بند 17 سیاسی قیدیوں نے، جن میں سے کئی صحافی ہیں، جیل کے خراب حالات کے خلاف 10 روز سے بھوک ہڑتال کررکھی ہے۔ اور ان میں سے کئی ایک کو خراب حالت کے باعث اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔

ان 17 سیاسی قیدیوں نے ، جو اس وقت تہران کی بدنام ایون جیل میں ہیں، حز ب اختلاف کے راہنماؤں کی جانب سے ہڑتال ختم کرنے کی اپیلوں کے باوجود 10ویں دن بھی اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھی ۔ رپورٹوں کےمطابق ان میں سے کچھ کو پہلے ہی ا سپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ یہ قیدی جن میں سے بیشتر صحافی ہیں ، ان خراب حالات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جن میں انہیں رکھاجا رہا ہے ۔
بھوک ہڑتال کرنے والے ایران کے ان سترہ سیاسی قیدیوں کے خاندانوں کو گزشتہ ہفتے جیل کے حکام نے زبانی طورپر خبردار کیا تھا کہ وہ تہران کی بدنام جیل ا یون کے باہر اکٹھے نہ ہوں۔ ایرانی جیل حکام نے بھوک ہڑتالیوں کو گزشتہ ماہ سے قید تنہائی میں رکھا تھا اور ان کے خاندان کے افراد اور بیرونی مبصرین کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی ۔ حزب اختلاف کے راہنما ، مذہبی شخصیات اور ایران کی اسلامک میڈیکل سوسائٹی چاہتی ہے کہ وہ حالات انتہائی خرا ب ہونےسے پہلے ہی ہڑتال ختم کر دیں۔
رضا معینی ، جو پیرس میں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ایک رکن ہیں، کہتے ہیں کہ بھوک ہڑتالی اپنے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کر رہےہیں ، جو انہیں دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ کہ اس گرو پ کا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ ان کی زندگیوں کوکوئی خطرہ لاحق ہو انہیں ہڑتال ختم کر دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی قیدیوں اور بھوک ہڑتا ل کرنے والے سیاسی قیدیوں کی زندگیاں انتہائی خطرے میں ہیں اور اگرچہ جیل میں ان سےملاقات ناممکن ہے، تاہم صورتحال پریشان کن ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ ان سب قیدیوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے جن کی ضمانت ایرانی آئین دیتا ہے ۔ جن میں صحت کی دیکھ بھال اور خاندان کے افراد سے ملاقات وغیرہ شامل ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے مطالبوں کی حمایت کرتی ہیں، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ قیدی اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دیں ۔
اسی اثنا میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ہفتےکے روز ایران میں یوم صحافت کے موقع پر ایک تقریر کے دوران صحافیوں کی گرفتاری یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی تردید کی ۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں ، ان کی حکومت نے اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی حکومت پر صحافیوں کی جانب سے کسی بھی سابقہ حکومت کی نسبت سب سے زیادہ تنقید کی گئی ہے، ان کے خلاف کوئی بڑے اقدام نہیں کیے ہیں ۔ انہوں نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ وہ صحافیوں کو کالم لکھنے کی بنا پر قید یا گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں اور یہ کہ ان کی حکومت ایسے کسی عمل میں ملوث نہیں ہے ۔
تاہم رضا معینی نے کہا کہ گزشتہ کئی برس میں لگ بھگ ایسےدو سو واقعات پیش آئے جن میں صحافیوں کو محض حکومت پر نکتہ چینی کرنے کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ اس وقت جو لوگ ابھی تک صحافت کے پیشے میں موجود ہیں ، وہ حکومت کے حامی صحافی ہیں ۔
ایک ایرانی سیاسی قیدی ، جس نے حال ہی میں کاراج کی ایک گنجائش سے زیادہ قیدیوں سے بھری گوہر دشت جیل کے حالات کے بارے میں ایک ایک کھلے خط میں وہاں کی زندگی کو جہنم اور ایک انسانی المیہ قرار دیا تھا ۔
اس قیدی نے اپنے خط میں عریاں اور پسینے سے شرابور جسموں کا ذکر کیا جن پر کوڑوں کےسرخ نشان تھے اور جو خراب اور آلودہ ہوا، سڑے ہوئے کوڑے کی بدبو ، ناکارہ ٹوائلٹ کی بکھری ہوئی غلاظت ، فوڈ پوائزننگ کے مریضوں کی سوکھی الٹیوں اور جراثیم آلود بلغموں سےآلودہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
ہوچانگ حسن یاری، جو کینڈا کے رائل ملٹری کالج میں پڑھاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ بہت سے قیدیوں کے خاندانوں نے ایسے ہی افسوسناک حالات کی خبردی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ وہاں حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ انہیں تازہ ہوا، مناسب خوراک اور ادویات میسر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے تقریباً سب ہی کویہ شکایت ہے کہ انہیں سونے نہیں دیا جاتا، انہیں نہانے نہیں دیا جاتا ۔ اور انہیں جسمانی، جذباتی اور روحانی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔