ایران: محدود معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت

  • قمر عباس جعفری

ایران کے صدر حسن روحانی، فائل فوٹو

ایران کے صدر حسن روحانی نے ایک ایسی صورت حال میں، جب کہ ملک کرونا وائرس کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، کہا ہے کہ ملک میں ایسی معاشی سرگرمیاں جن میں زیادہ خطرات نہ ہوں گیارہ اپریل سے دوبارہ شروع کر دی جائیں گی۔ ایران میں ہفتے کی شام تک متاثرہ افراد کی تعداد 58 ہزار سے زیادہ تھی اور 3600 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔

ٹیلی وژن پر دکھائی جانے والی ایک میٹنگ میں انہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں کے پھر سے آغاز کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے گھروں کے اندر رہنے کے اصول کو ترک کر دیا ہے۔

انہوں نے کم خطرات والی سرگرمیوں کی وضاحت تو نہیں کی، لیکن یہ کہا کہ زیادہ خطرے والی سرگرمیاں جیسے کہ اسکولوں کا کھلنا یا بڑے اجتماعات ہیں، ان پر 18 اپریل تک پابندی رہے گی۔

خیال رہے کہ صدر روحانی شہروں کے لاک ڈاؤن کے حامی نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے 18 اپریل تک کے لئے شہروں کے درمیان سفر پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ماہرین معاشیات خبردار کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن ملک کی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے جس پر پہلے ہی سخت بین الاقوامی تعزیرات عائد ہیں۔

ایرانی امور کے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر راشد نقوی سے جب سوال کیا گیا کہ کم خطرے والی سرگرمیوں سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ ایران میں تقریباً پندرہ روزہ نوروز کی چھٹیاں دو دن پہلے ہی ختم ہوئی ہیں۔ دوسرا یہ کہ کرونا وائرس کی وجہ سے بیشتر کام بند تھے۔ اب یہ چھٹیاں بھی ختم ہو چکی ہیں اور کرونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں بھی بتدریج کمی آ رہی ہے تو حکومت کسی حد تک ان سرگرمیوں کو بحال کر رہی ہے۔ ہر چند کہ فوری طور پر پورا نظام فعال نہیں ہو سکے گا، لیکن کچھ سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔

اس سوال کے جواب میں کہ اقتصادی تعزیرات ایران کو کس حد تک متاثر کر رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ اثر تو پڑ رہا ہے لیکن ایسے بھی ملک ہیں جو ایران سے تعاون کر رہے ہیں۔ تجارت بھی ہو رہی ہے۔ امپورٹس بھی ہو رہی ہیں اور دنیا کا ہر سامان ایران کے بازاروں میں دستیاب ہے، چاہے اس کی قیمت کچھ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف سے قرضے کی درخواست کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ بعض ارکان پارلیمنٹ کا خیال ہے کہ جب ایران آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتا ہے تو ضرورت کے وقت اس سے قرض لینے میں کیا قباحت ہے۔ اس سے کہا جانا چاہیئے۔ قرض ملے یا نہ ملے یہ بعد کی بات ہے۔