دوحہ کانفرنس: طالبان خواتین کے حقوق پر بات کرنے کیلئے رضامند؟

  • شہناز عزیز

دوحہ کانفرنس میں شریک طالبان کے نمائندے

یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس میں حکومت کے نمائندوں کی شرکت پر طالبان نے اعتراض نہیں کیا۔ اس اجلاس کے انعقاد کیلئے افغان حکومت کی بھرپور حمایت بھی فراہم کی گئی ہے۔

دوحہ میں ہونے والے دو روزہ اجلاس کو ’’انٹرا افغان کانفرنس برائے امن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

کانفرنس میں موجود وائس آف امریکہ کی نمائندہ عائشہ تنظیم نے بتایا کہ اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان حکومت کے کچھ عہدیدار اپنی ذاتی حیثیت میں اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، جن میں قومی سلامتی کے نائب مشیر کے علاوہ نادر نادری اور متین بیگ جیسے نمایاں سیاستدان بھی شامل ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس میں حکومت کے نمائندوں کی شرکت پر طالبان نے اعتراض نہیں کیا۔ اس اجلاس کے انعقاد کیلئے افغان حکومت کی بھرپور حمایت بھی فراہم کی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ نے اجلاس میں متعدد مندوبین سے بات کی۔ جمال الدین بدر کا کہنا تھا کہ اگرچہ اجلاس میں حکومت کے نمائندے اپنی ذاتی حیثیت میں شریک ہیں. تاہم، وہ ایسے تمام نکات اٹھا رہے ہیں جو افغان حکومت کا کوئی نمائندہ اپنی سرکاری حیثیت میں اٹھاتا ہے۔

عائشہ تنظیم کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں کئی خواتین بھی شرکت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک خاتون مندوب عقیلہ وردک ہیں جو خواتین کی معروف فعال کارکن ہیں۔ وہ اس وقت اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں افغان حکومت کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ عقیلہ وردک کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کے رویے میں بہت تبدیلی نظر آئی اور گذشتہ رات دیے گئے عشائیے میں طالبان نے ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی اور ان کی گفتگو سے یہ بھرپور تاثر ملا کہ وہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔

طالبان مندوبین خواتین کی تعلیم، ان کے کام کرنے اور وراثت کے حقوق سے متعلق بات کرنے کیلئے بھی تیار نظر آئے۔

کانفرنس میں خواتین مندوبین نے بھی شرکت کی

اجلاس میں شریک مندوبین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کے آئین میں دی گئی انسانی حقوق کی ضمانت کا بھرپور دفاع کرنے کے خواہشمند ہیں۔ تاہم، عائشہ تنظیم کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انہوں نے سول سوسائٹی اور فن کار برادری سے تعلق رکھنے والی جن خواتین سے اس بارے میں بات کی، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرنا آسان ہے مگر طالبان کے اقتدار میں آنے اور طاقت حاصل کرنے کے بعد ایسے لوگ فیصلہ سازی میں شامل ہوں گے جن کا نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔

اس بارے میں وائس آف امریکہ کی نمائندہ عائشہ تنظیم سے شہناز عزیز کے انٹرویو کا مکمل متن سننے کیلئے اس لنک پر کلک کریں:

Your browser doesn’t support HTML5

دوہا میں انٹرا افغان امن کانفرنس