جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ صدر زرداری کو بلوچوں نے معاف نہیں کیا۔ بلوچستان میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں، بلوچ نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہیں، صوبے کے حالات تشویشناک ہیں، مزید غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وائس آف امریکا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما اور سیکریٹر ی جنرل لیاقت بلوچ، پاکستان کے سینئر سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔وہ 9 دسمبر 1952 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1970ء میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا تھا۔ ان کا تعلق مظفرگڑھ صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ1976ء میں پنجاب یونیورسٹی میں دوران تعلیم طلبہ تنظیم کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ وہ 1977ء اور 1978ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی صدر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں ہیں۔ وہ 1985ء، 1990ء اور 2002ء میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ وہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کے بھی جنرل سیکریٹری رہ چکے ہیں۔
لیاقت بلوچ دو دن قبل ہی صوبہ بلوچستان کے دورے سے لوٹے ہیں ۔ان کا یہ دورہ کیسا رہااور اس دورے کیا مقاصد تھے، اس سوال پر ان کہنا تھا:
"اس دورے سے صرف دوماہ قبل بھی میں بلوچستان گیا تھا مگر ان دوماہ میں صورتحال اس قدر بدل جائے گی، یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ حالات جس تیزی سے بگڑے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے بلوچستان میں حکومت کی کوئی رٹ یا عمل داری ہی نہ ہو۔ اپنے چار روزہ دورے میں، میں گوادر، تربت، لسبیلہ سمیت کئی علاقوں میں گیا مگر سب جگہ ایک ہی چیز مجھے وہاں نظر آئی کہ وہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئٹہ میں سر شام ہی لوگ گھروں میں قید ہوجاتے ہیں اور جیسے جیسے رات گہری ہوتی ہے خوف کے سائے بھی گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ اگرچہ میرے وہاں جانے کا مقصد مختلف واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے ملنا اور ان سے تعزیت کرنا تھالیکن میں نے وہاں دیگر افراد سے بھی ملاقات کی۔ خاص کر نوجوانوں سے جنہیں حکومت سے بہت سے گلے شکوے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو بلوچستان میں رہنے والے عوام کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ دیگر صوبوں کی طرح اس صوبے کے مسائل حل کرنے پر کبھی بھی بھر پور توجہ نہیں دی گئی۔ صوبے کے وسائل سے تو سب کو دلچسپی ہے مگر مسائل سننے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا بلوچ نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر غلط راہوں پر چل نکلا ہے"۔
وی او اے : بلوچستان کے حالات میں یکدم خرابی یا ان میں تیزی آنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
لیاقت بلوچ: بلوچ قوم موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ اس کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حالت یہ ہے کہ بلوچستان اور اسلام آباد میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے مگر اس کے باوجود خود وزیراعلیٰ کو یہ شکایت ہے کہ ان کی سنی نہیں جارہی۔ صوبے میں جو بھی حالات ہیں ان پر کسی کی توجہ نہیں نہ ہی کوئی انہیں حل کرنے پر رضامند نظر آتا ہے۔ میرا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالات بہت تشویشناک ہیں لیکن اس کے باوجود میڈیا اور قومی جماعتیں حالات کو نظر انداز کررہی ہیں ۔ صوبے کے حالات فوری اور ہنگامی بنیادوں پر توجہ چاہتے ہیں، اگر صورتحال کچھ دن اور اسی طرح برقرار رہی یاقومی قیادت اور قومی اداروں نے مزید غفلت کا مظاہرہ کیا تو حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے"۔
وی او اے : قومی اداروں سے آپ کی کیا مراد ہے اور سیاسی جماعتوں کواس سلسلے میں کیا کرنا ہوگا؟
لیاقت بلوچ: قومی اداروں سے مراد پارلیمنٹ ، فوج، ایوان بالااور حساس ادارے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو پارلیمنٹ کے فورم پر اٹھائیں مگر مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر ابھی تک پارلیمنٹ کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کا کوئی کردار نظر ہی نہیں آرہا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اس کے مستقل حل کو تلاش کرنے کے لئے یکجا ہوکر سوچیں۔ اس مسئلے پر باہمی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ عملاً ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے"۔
وی اواے : موجودہ حکومت نے بلوچ قوم کی محرومیوں کو دیکھتے ہوئے ہی آغاز حقوق بلوچستان شروع کیا تھا، کیا بلوچ اس سے مطمئن ہیں؟
لیاقت بلوچ : یوں تواین ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں آئینی ترمیم بھی ہوئیں اور آغاز حقوق بلوچستان جیسے اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر یہ سب بے سود ہیں۔ عوام پر اس کے کوئی اثرات نہیں، بلوچ قوم نے حالیہ برسوں میں جن حالات کا سامنا کیا ہے اس سے بے اعتمادی کی خلیج بہت گہری ہوگئی ہے ۔ اس کا اندازہ بھی دور بیٹھ کرلگانا ناممکن ہے۔ بلوچ قوم کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت ملازمتیں بھی دی گئیں مگر یہ سب بندر بانٹ ہے !! اب تک منظور نظرلوگ ہی ملازمت حاصل کرسکے ہیں ۔ گوادر منصوبے کی ہی مثال لے لیجئے ۔ بلوچ اس منصوبے پر بے یقینی کا شکار ہیں ۔ وہ اس منصوبے کو اپنے اقتصادی حق کا قتل تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر کام کرنے والوں کی بلوچستان آمد سے خود بلوچ اقلیت میں چلے جائیں گے کیوں کہ بلوچوں کی آبادی پہلے ہی کم ہے"۔
وی او اے : لیکن بندوق اٹھانے یا ٹارگٹ کلنگ سے بھی تو حقوق کا ملنا مشکل ہے؟
لیاقت بلوچ : بلوچستان میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگز پر سنجیدہ طبقے کو سخت تشویش ہے۔ بلوچ دانشور اس کے حق میں نہیں بلکہ وہ ان واقعات پر پریشان ہیں۔ ان کی نظر میں اساتذہ، ڈاکٹرز، حجام ، موچی اور سب سے بڑھ کر معصوم لوگوں کو قتل کرنا دانشمندی نہیں۔ بلوچ قوم یقین رکھتی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں وہ افراد ملوث ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں"۔
وی او اے: تو ٹارگٹ کلنگ کا اصل ذمے دار کون ہے؟
لیاقت بلوچ: دیکھئے فرشتے تو یہ کام کرنے کے لئے نیچے آنے سے رہے۔ انسان ہی یہ کام کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان میں بلوچ بھی شامل ہوں مگر وہ بلوچ جن کے مقاصد کچھ اور ہوں ، جن کے اہداف کچھ اور ہوں ۔ ایک عام بلوچی محب وطن ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے"۔
وی او اے : بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے حال ہی میں کہا تھا کہ صوبے میں شورش جاری ہے، حکومت کو علیحدگی پسند وں کا سامنا ہے۔
لیاقت بلوچ : وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں ان کے پاس ایسی اطلاعات ہوں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اصل میں حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل پیدا ہوئے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو بلوچستان کی خراب صورتحال میں تیزی اس وقت سے آنا شروع ہوئی جب بلوچستان کے بزرگ رہنما اکبر بگٹی کو فوجی ڈکٹیٹر نے قتل کرایا۔ یہ قتل بلوچستان کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس قتل سے قبائل کے درمیان وفاق سے نفرت بڑھی ۔ اگر وہ معاملہ مذاکرات سے حل ہوجاتا تو شاید آج یہ حالات نہ ہوتے ۔ فوجی ڈکٹیٹر شپ ختم ہوگئی مگر آپریشن ابھی جارہی ہے۔ اس قتل کا مقدمہ درج ہے مگر اس پر حکومت کوئی کارروائی کرنے پر آمادہ نہیں۔ لاپتہ افراد کا آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا، حساس ادارے آج بھی بلوچوں کو حراست میں لینے سے نہیں چوکتے یہی وجہ ہے کہ بلوچ آج تک صدر زرداری کو معافی مانگنے کے باوجود دل سے معاف نہیں کرسکے کیوں کہ ان کے خیال میں حکومتی رویہ اب بھی صوبے کے حق میں نہیں۔
وی اواے: جماعت اسلامی بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے کیا کرسکتی ہے؟
لیاقت بلوچ: بلوچستان کی عوام کے جو مطالبات ہیں جماعت اسلامی ان سے حکومت اور میڈیا دونوں کو آگاہ کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے مسائل کے حل اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ملک گیر جدوجہد کرے گی اور عوام کے ساتھ مل کر لانگ مارچ اور دھرنا دے گی۔
کیا فوجی آپریشن، طاقت اور قوت کا استعمال اس مسئلے کا حل ہے؟
لیاقت بلوچ: فوجی آپریشن، طاقت اور قوت کا استعمال لاحاصل اور بے نتیجہ ہے۔ اس نے بغاوت اور نفرت پیدا کی ہے۔ میرے خیا ل میں پہلے مرحلے میں قومی اتفاق رائے پید ا کیا جائے دوسرے مرحلے میں بلوچ قوم کا اعتماد بحال کیا جائے ۔یہ اعتماد کس طرح پیدا ہوگا یہ سوچنا حکومت کا کام ہے، ہاں اس سلسلے میں ملکی دانشوروں، سیاستدانوں اور مبصرین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ صوبے سے غربت کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں، بلوچ نوجوانوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں اور صوبے کے وسائل سے ہونے والی آمدنی کے ایک بڑے حصے کو صوبے پر ہی خرچ کیا جائے تو معاملات خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔
حکومتی ترجمان کے مطابق موجودہ حکومت دیگر معاملات کی طرح بلوچستان کے حوالے سے بھی" مفاہمتی پالیسی " اختیار کئے ہوئے ہے ۔آغاز حقوق بلوچستان اسی مفاہمت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔ صدر، وزیراعظم، صوبائی گورنر اور وزیراعلیٰ ،بلوچستان کے حوالے پر امید نظر آتے ہیں۔ گورنربلوچستان نواب ذوالفقارعلی مگسی مانتے ہیں کہ ماضی میں بلوچوں کو نظراندازکیاگیا تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کوترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ادھر صدر نے وزیر اعلیٰ کو یقین دلایا ہے کہ حقوق آغاز بلوچستان پیکیج پر پوری طرح عمل کیا جائیگا اور اس ضمن میں بلوچستان کی ترقی کیلئے وفاقی حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان پیکیج پر موثر طریقے اور سنجیدگی سے عمل درآمد کر رہی ہے۔