جگجیت سنگھ ۔۔۔۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں

آنجہانی جگجیت سنگھ کی دوسری برسی کی مناسبت سے ایک تحریر۔۔۔ 2009ء میں وائس آف امریکہ کے لیے جگجیت سنگھ سے کیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو کی کہانی مدیحہ انور کی زبانی۔۔۔

واشنگٹن ۔۔۔ واشنگٹن کے ڈاؤن ٹاؤن میں واقع ہوٹل مے فئیر کی دوسری منزل پر کمرہ نمبر 234 کی گھنٹی بجانے کے بعد ہمارے لیے وقت گویا تھم سا گیا۔ چند لمحوں بعد دروازہ کھلا اور سامنے کھڑی شخصیت نے خوشگوار لہجے میں خوش آمدید کہا۔۔۔ مگر ٹھہرئیے، اس ملاقات کے احوال سے قبل، اس ملاقات کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔۔۔

گذشتہ دنوں معروف شاعر پیرزادہ قاسم صاحب سے گفتگو کا موقع ملا اور ان کی ایک بات جیسے دل کو جا لگی۔۔۔ کہنے لگے کہ میرا جنم تین مرتبہ ہوا۔۔۔ ایک مرتبہ جب میرے والد صاحب پیدا ہوئے، ایک مرتبہ جب میری والدہ کا جنم ہوا اور تیسری مرتبہ میری اپنی پیدائش کے وقت۔۔۔ یہ تھوڑی غیر متوقع سی بات تھی، وضاحت دریافت کی تو بولے کہ، ’بھئی انسان اپنے والدین کی عادات و خصائل کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ میں اب اس عمر میں اس کا ایک تہائی بھی نہیں رہ گیا جو میں کبھی تھا۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنی عادات اپنے بچوں میں منتقل کی ہیں ۔۔۔ اسی طرح میں اپنے والدین کی عادات کا مجموعہ ہوں، یوں میرا جنم تین مرتبہ ہوا۔‘

مجھے پیرزادہ قاسم صاحب کی بات میں وزن لگا۔۔۔ انسان واقعی اپنے والدین کی عادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ اور اپنے والدین کی کچھ عادات اس میں غیر ارادی طور پر آتی ہیں اور اس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔۔۔ جیسے شعر و ادب سے شغف مجھے اپنے والدین سے ورثے میں ملا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ چھٹی جماعت میں جس وقت میرے کلاس فیلوز ہندی فلموں، شاہ رخ خان اور کاجول کی باتیں کرتے تھے، مجھے جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غزلیں سننے کا شوق ہو گیا۔۔۔ اور شوق بھی ایسا کہ بقول شاعر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جب موقع ملتا جگجیت سنگھ کی غزلوں کی سی ڈی خرید لیتی اور سی ڈی کے گِھس جانے تک اسے سنتی رہتی۔۔۔ میرے اس شوق سے میری بہنیں عاجز آ چکی تھیں اور اکثر میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر جگجیت سنگھ کی سی ڈیز یا تو کھڑکی سے باہر پھینک دیتیں یا پھر انہیں کچرے کے ڈبے کی زینت بنا دیتیں۔۔۔ مگر میں اگلے ماہ جیب خرچ ملنے پر سی ڈی دوبارہ خرید لیتی۔۔۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔۔۔

یہ غالباً 2004ء
میں میرے زمانہ ِ طالبعلمی کی بات ہے۔ معلوم ہوا کہ جگجیت سنگھ صاحب پاکستان آئے ہوئے ہیں اور لاہور میں کانسرٹ کریں گے۔ بہت عرصے سے تمنّا تھی کہ میں جگجیت سنگھ صاحب کو لائیو سنوں، میں اکثر اپنی والدہ سے کہتی تھی کہ، ’میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جگجیت سنگھ صاحب کو لائیو سننا ہے‘۔۔۔ مگر شاید قسمت کو یہ منظور نہ تھا کیونکہ جگجیت سنگھ صاحب کا کانسرٹ لاہور کے ایک انتہائی مہنگے ہوٹل میں ہورہا تھا اور فی کس ٹکٹ کی قیمت دس ہزار روپے تھی۔ آج سے نو برس پہلے دس ہزار روپے کی بڑی اہمیت تھی، دوسری بات یہ کہ زمانہ ِ طالبعلمی میں ایسی ’عیاشی‘ کی نہ تو جیب اجازت دیتی تھی اور نہ ہی والدین سے کہنے کا کوئی فائدہ تھا کیونکہ بہرحال ایک کانسرٹ کے لیے دس ہزار روپے ملنے کا تصور محال تھا، یوں دل مسوس کر رہ گئے۔

پھر ہوا یوں کہ قسمت ہمیں واشنگٹن کھینچ لائی اور مجھے بطور رپورٹر امریکہ میں پاکستانی اور بھارتی کمیونٹی کی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کا موقع ہوا۔ ایک دن میں ایسی ہی ایک مقامی دیسی ویب سائیٹ پر واشنگٹن میں ہونے والے ایونٹس کے بارے میں پڑھ رہی تھی جب پتہ چلا کہ گرمیوں میں جگجیت سنگھ صاحب واشنگٹن تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے فوراً کانسرٹ کے آرگنائزر سے رابطہ کیا اور معلوم ہوا کہ جگجیت سنگھ
2009ء میں مئی کے آخری ہفتے میں واشنگٹن آئیں گے۔ میں نے آرگنائزر سے پوچھا کیا کانسرٹ کے ساتھ ساتھ جگجیت صاحب کا انٹرویو کرنا بھی ممکن ہو سکے گا؟ بولے، ’ضرور، اگر جگجیت سنگھ صاحب کی مرضی ہوئی تو ضرور ہو سکتا ہے۔‘

مئی کے جاتے دنوں کے ایک ویک اینڈ پر جگجیت صاحب کا کانسرٹ ہونا طے تھا جبکہ کانسرٹ سے ایک روز قبل جگجیت صاحب نے اس حوالے سے پریس کانفرنس بھی کرنا تھی۔ شومئی ِ قسمت، میں اور میرا کیمرہ مین جگجیت صاحب کی پریس کانفرنس کے لیے دفتر سے بس نکلنے ہی والے تھے کہ مجھے آرگنائزر کا فون آیا جنہوں نے کانسرٹ کے ملتوی ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ جگجیت صاحب ہنگامی طور پر اپنی تمام مصروفیات ادھوری چھوڑ کر آج رات کی ہی پرواز سے واپس بھارت جا رہے ہیں کیونکہ وہاں پر ان کی سوتیلی بیٹی نے اچانک خود کشی کر لی تھی۔۔۔ چند ماہ گزرے اور معلوم ہوا کہ جگجیت صاحب نومبر میں دوبارہ تشریف لا رہے ہیں۔۔۔ آرگنائزر سے بات ہوئی اور طے پایا کہ ہم 15
نومبر کو جگجیت صاحب کا کانسرٹ وائس آف امریکہ کے لیے کوور کریں گے۔

واشنگٹن ڈی سی کا DAR
ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ کانسرٹ حسب ِ توقع شاندار تھا، لوگ جگجیت صاحب کے ساتھ ساتھ گا رہے تھے، ان کی گائی ہوئی غزلوں پر سر دُھن رہے تھے، ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔۔۔

کانسرٹ ختم ہونے کے بعد ہم سٹیج کے پیچھے اس کمرے میں چلے گئے جہاں جگجیت صاحب کانسرٹ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چائے پی رہے تھے۔ ان سے مختصر بات چیت ہوئی جسے ٹی وی کی زبان میں ساؤنڈ بائٹ لینا کہتے ہیں اور موقع غنیمت جانتے ہوئے ان سے انٹرویو کی فرمائش بھی کر ڈالی۔ جگجیت صاحب نے بخوشی اگلے روز صبح دس بجے انٹرویو کے لیے وقت دے دیا۔

اگلے روز ہم ہوٹل مے فئیر پہنچ گئے جہاں جگجیت صاحب سے انٹرویو طے تھا۔ جگجیت صاحب آج مختلف لگ رہے تھے۔ گذشتہ روز کانسرٹ میں انہوں نے نارنجی رنگ کا ایک لمبا سا چوغہ پہن رکھا تھا جبکہ آج وہ پینٹ شرٹ اور ایک ہلکے سے کالے سوئیٹر میں ملبوس تھے۔ گذشتہ روز کانسرٹ کے بعد جب میں نے ان سے مختصر گفتگو کی تو ان کے انداز میں بے پروائی اور سرد مہری کی جھلک دکھائی دی جبکہ انٹرویو والے دن ان کا انداز یکسر جدا تھا۔ غالباً کانسرٹ میں سب کے سامنے وہ ایک رپورٹر سے ایک بڑے غزل گائیک کے طور پر بات کر رہے تھے جبکہ انٹرویو والے دن وہ جگجیت سنگھ کی حیثیت سے میرے سامنے بیٹھے تھے۔

جگجیت صاحب کے انداز میں گرم جوشی تھی اور وہ تپاک سے ملے۔ مجھ سے میرے کیرئیر کے بارے میں تفصیلاً پوچھا۔ حیران ہوئے اور بولے، ’تم پاکستان سے امریکہ آکر نوکری کر رہی ہو،‘ پھر کہنے لگے، ’مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ جب انڈیا یا پاکستان کی لڑکیاں اپنے کیرئیر کو سنجیدگی سے لیتی ہیں اور کامیابیاں حاصل کرتی ہیں۔‘

اگلے پندرہ منٹ میں میرے ساتھی کیمرہ مین منصور ملک کیمرہ سیٹ کر چکے تھے اور ہم نے انٹرویو کا باقاعدہ آغاز کیا۔ تقریباً پون گھنٹے تک جگجیت صاحب سے اُن کی زندگی کے اتار چڑھاؤ، غزل گائیکی میں ان کے کیرئیر، بھارت میں غزل گائیکی کے مختلف ادوار، اردو زبان سے ان کے لگاؤ، غزل کے مستقبل اور نہ جانے کن کن موضوعات پر بات کرتے رہے۔


انٹرویو ختم ہوا اور ساتھی کیمرہ مین منصور نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا جبکہ میں اور جگجیت صاحب ابھی بھی محو ِ گفتگو تھے۔ جگجیت صاحب سے اس ملاقات کے بعد بھی رابطہ برقرار رہا۔ جب انکا انٹرویو ٹی وی پر نشر ہوا تو میں نے جگجیت صاحب کو انڈیا فون کرکے انٹرویو کے بارے میں بتایا، انہیں انٹرویو پسند آیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ آرگنائزر نے مجھے کہا تھا کہ یہ جگجیت صاحب کا آخری دورہ ِ امریکہ ہے اور وہ دوبارہ امریکہ نہیں آئیں گے۔ میں نے انٹرویو میں ان سے سوال پوچھا، ’سنا ہے کہ آپ کو 2011ء
میں بھی امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی تھی جو آپ نے رد کر دی۔ آپ دوبارہ امریکہ کیوں نہیں آئیں گے؟‘ ۔۔۔ جگجیت صاحب مسکرائے اور بولے، ’ارے بھئی، کس نے کہہ دیا کہ ہم نہیں آئیں گے۔ آپ بلائیے، ہم ضرور آئیں گے۔۔۔‘

مگر وہ دوبارہ نہ آسکے اور 10
اکتوبر 2011ء کو دو ہفتے تک کوما میں رہنے کے بعد جگجیت سنگھ کے انتقال کی خبر نے دنیا بھر میں میرے جیسے ان کے لاکھوں پرستاروں کو دکھی کر دیا۔۔۔ بھارت میں اردو شاعری کو گائیکی کے ذریعے ایک نیا انداز دینے والے جگجیت سنگھ کا خلاء پُر کرنا مشکل ہے۔۔۔ اور ایک گائیک سے بڑھ کر اس انسان کا خلاء پر کرنا زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے جس نے اپنے کیرئیر کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ اپنی اچھے اخلاق کے باعث لاکھوں دلوں میں گھر کیا۔۔۔ یقیناً جگجیت سنگھ کا نام ان کے فن کی طرح باقی رہے گا !