’منٹو صاحب جتنی بڑی شخصیت ہیں، جو انہوں نے اپنی زندگی میں کیا، جو ان کے ساتھ ہوا، جن جن ادوار سے وہ گزرے۔ اس کا احاطہ کوئی ایک فلم نہیں کر سکتی‘۔
’منٹو صاحب کو عموماً دو وجوہات کی بنا پر یاد کیا جاتا ہے: ایک تو ہم اتنے بڑے مایہ ناز شخص کے ساتھ زیادتی کر چکے تھے۔ انہیں کبھی ٹیکسٹ (بُک) کا حصہ بنا کر نہیں پڑھایا گیا۔ پی ایچ ڈی لیول پر جو لوگ بائے چوائس پڑھنا چاہتے تھے، پڑھ لیتے تھے۔ لیکن، ایکrejection منٹو کے کام کے ساتھ ہمیشہ روا رکھی گئی۔ دوسرے ٹی وی، فلم، ریڈیو اور سٹیج پر جب بھی منٹو کے حوالے سے گفتگو ہوتی تھی، تو صرف سنسنی کو کیش کیا جاتا تھا۔۔۔ہم نے کوشش کی ہے کہ یہ دونوں کام ہم اپنی فلم میں نہ کریں‘۔
یہ الفاظ ہیں پاکستان میں کلاسیک سینما کا احیاء سمجھی جانے والی فلم، ’منٹوِ‘ کے ہدایت کار اور اداکار سرمد سلطان کھوسٹ کے، جو انہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ اردو سے خصوصی بات چیت میں کہے۔
اگر سعادت حسن منٹو خود آج سرمد کھوسٹ کی ’منٹو‘ دیکھیں تو وہ کیسا محسوس کریں گے؟
سرمد کہتے ہیں: ’اپنے کان پکڑ کر کہوں گا، غلطیاں جتنی بھی ہیں مگر میرا عشق آپ سے سچا ہے‘۔
سرمد کھوسٹ نے اپنے انٹرویو میں منٹو پر فلم بنانے کی پس پردہ کہانی، اور فلم کی ریلیز کے بعد سامنے آنے والی مثبت اور منفی تنقید پر بات کرنے کے ساتھ مستقبل کے لئے اپنے عزائم کا اظہار بھی کیا۔
’منٹو‘کو جسے گزشتہ ماہ واشنگٹن ڈی سی کے ساؤتھ ایشیا فلم فیسٹول میں بھی پیش کیا جا چکا ہے،امریکہ میں اپنی تھئیٹریکل ریلیز سے قبل16 سے 25 اکتوبر تک دنیا کے معتبر ترین امریکی تعلیمی اداروں ہارورڈ، کولمبیا، ییل اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں دکھائی جا رہی ہے ۔ سرمد کھوسٹ خود بھی فلم سکریننگ پر موجود ہونگے ۔
سرمد کھوسٹ کا مکمل انٹرویو دیکھنے کے لئے وڈیو لنک پر کلک کیجئے:
Your browser doesn’t support HTML5