امریکہ تمام تارکینِ وطن کا خیر مقدم کرتا ہے: کانگریس مین تھارنبری

ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین نے اس تاثر کی تردید کی کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن کے درمیان شدید اختلافات کی بنا پر قانون سازی اور دیگر سرکاری امور میں مشکلات پیش آرہی ہیں
پاکستان اور کئی ترقی پذیر ممالک میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے ارکان کی اکثریت دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے زمینداروں کی ہوتی ہے، جب کہ امریکی پارلیمنٹ میں زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے ارکان کی تعداد کافی کم ہے۔ کیونکہ، یہاں ایگری سیکٹر سے وابستہ افراد کا تناسب نمایاں طور پر کم ہو چکا ہے۔

سنہ1870 کے عشرے میں امریکہ کا زرعی شعبہ تقریباً 60 سے 80 فی صد افراد کو روزگار فراہم کرتا تھا، جب کہ اب یہ تعداد محض دو سے تین فی صد رہ گئی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، امریکہ کے زرعی شعبے کی پیداوار اور آمدنی دونوں میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ نہ صرف خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہے، بلکہ دنیا کے اکثر ممالک کی غذائی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔ اس کا کریڈٹ جاتا ہے سائنسی تحقیق اور ترقی کو۔

ریاست ٹیکساس کا شمار بڑے پیمانے پر اناج پیدا کرنے والی امریکی ریاستوں میں ہوتا ہے۔
وہاں بڑے بڑے زرعی فارم اور میویشیوں کی پرورش گاہیں موجود ہیں۔

کانگریس مین میک تھارنبری کا تعلق ٹیکساس کے دیہی معاشرے سے ہے اور ان کا خاندان سات نسلوں سے گلہ بانی کررہا ہے۔

وہ کہتے کہ انہوں نے زرعی شعبے اور ان سے وابستہ خاندانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست اختیار کی ہے۔ وہ گذشتہ 20 برسوں سے اپنے حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور اس مرتبہ، اُنہوں نے دسویں بار الیکشن جیتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی کئی اہم کمیٹیوں کے رکن ہیں جن میں آرمرڈ سروسز کمیٹی اور سیلیکٹ کمیٹی آن انٹیلی جنس شامل ہیں۔ وہ سیکیورٹی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیفے ڈی سی Congressman Mac Thornberry



’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو کیفے ڈی سی میں اردو سروس کے چیف فیض رحمٰن سے اپنے ایک انٹرویو میں، کانگریس مین تھارنبری کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے معیشت ترقی کررہی ہے اور مختلف ممالک کے معاشی رابطوں میں اضافہ اور ایک دوسرے پر معاشی انحصار بڑھ رہا ہے، سیکیورٹی کی اہمیت بھی اسی تناسب سے بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ معیشت کو لاحق خطرات سے بچانے کے لیے سیکیورٹی کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے ترقی دینا ضروری ہے۔

امریکہ میں ان دنوں بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں اور ستمبر میں ختم ہونے والے مالی سال تک چھ ماہ کے عرصے میں 85 ارب بچانے کے منصوبے پر کام ہورہاہے۔ اِن کٹوتیوں کی زد میں سب سے زیادہ پینٹاگان آرہا ہے، جسے اپنے اخراجات 42 ارب ڈالر تک گھٹانے ہیں۔

اِس سوال کے جواب میں کہ دفاعی شعبے میں کفایت کے پروگرام سے سیکیورٹی کے امور کس حد تک متاثر ہو سکتے ہیں، کانگریس مین تھارنبری کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور حکومت پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی خسارہ بھی کم کرے اور اس کے نتیجے میں قومی سلامتی کے لیے بھی کوئی خطرہ پیدا نہ ہونے دے۔ اس صورت حال کے مقابلے کے لیے ہم یہ اختیار پینٹاگان کو دے رہے ہیں کہ وہ دستیاب فنڈز کو کم اہم شعبوں سے زیادہ اہم شعبوں کی جانب منتقل کرسکتا ہے۔

ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین نے اس تاثر کی تردید کی کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن کے درمیان شدید اختلافات کی بنا پر قانون سازی اور دیگر سرکاری امور میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اور انٹرنیٹ صورت حال کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہاہے۔

امیگریشن اصلاحات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کانگریس مین کا کہناتھا کہ امریکہ بنیادی طور پر تارکین وطن کا ملک ہے۔ لیکن، غیر قانونی تارکینِ وطن کی ایک کثیر تعداد کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے کے حل اور غیر قانونی تارکین وطن کی مشکلات دور کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور یہ مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کا تعلق بارڈر سیکیورٹی سے ہے، کیونکہ غیر قانونی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد چوری چھپے سرحد عبور کرکے امریکہ میں داخل ہوتی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ان کی پارٹی اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ مل کرکام کرنا چاہتی ہے۔

کانگریس مین تھارنبری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ری پبلیکن پارٹی مسلم امیگرنٹس کے بارے میں منفی سوچ رکھتی ہے۔

انہوں نے صدر براک اوباما اور سابق صدر جارج بش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں تمام قانونی تارکین وطن کو، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

یہاں اُنہیں اپنے عقائد کے مطابق عبادات اور مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔ لیکن، جب کبھی اس طرح کی کوئی بات منظر عام پر آتی ہے تو وہ دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے والے چند مخصوص افراد کے بارے میں ہوتی ہے۔ ایسے افراد کسی بھی ملک میں ہوسکتے ہیں۔ ان کا تعلق کسی بھی معاشرے اور کسی بھی عقیدے اور مذہب سے ہوسکتا ہے اور انہیں دنیا بھر میں اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس نظر سے ہم انہیں دیکھتے ہیں۔

اُنہوں نے بتایا کہ کئی نسلوں سے ان کے خاندان کی سرگرمیاں زرعی شعبے تک محدود رہی ہیں اور کبھی کسی نے سیاست میں آنے کا نہیں سوچا۔ لیکن، جب انہوں نے دیکھا کہ واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ، جو دیہی معاشرے اور وہاں کے لوگوں کے مسائل اور ضرورتوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، ان پر بلاسوچے سمجھے ٹیکس لگادیتے ہیں، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے حقوق کی آواز اٹھائیں گے اور دیہی آبادی کے مفادات کے لیے کام کریں گے۔ چنانچہ، وہ گذشتہ 20 برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ ساڑھے تین درجن سے زیادہ زبانوں میں دنیا بھر کے کروڑوں افراد کے لیے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرام نشر کرتا ہے اور اس بین الاقوامی ادارے کی مختلف زبانوں میں اپنی نیوز ویب سائٹس بھی ہیں۔ لیکن، سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ 1942 سے قائم اس ادارے کے بارے میں امریکہ میں آباد بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے قانونی بندوشوں کے باعث اس کے پروگرام امریکہ کے اندر نہیں سنے جاسکتے۔ لیکن، کچھ عرصہ پہلے ایک ترمیم کے ذریعے وائس آف امریکہ کے کچھ پروگرام جزوی طور پر اندرون ملک نشر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کانگریس مین میک تھارنبری ترمیمی مسودے پر کام کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے۔

اُنہوں نے پسِ منظر بتاتے ہوئے کہا کہ وائس آف امریکہ شروع کرنے کا مقصد امریکی معیشت اور یہاں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع کے بارے میں بیرونی ملکوں کے لوگوں کو آگاہ کرنا تھا۔ جب کہ، اس خدشے کے پیش نظر اس کے پروگرام اندرون ملک براڈکاسٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ کہیں حکومت میڈیا کے اس اہم ذریعے کو اپنے حق میں پراپیگنڈے کے لیے استعمال نہ کرے۔

کانگریس مین کا کہناتھا کہ اب چونکہ وقت کے تقاضے تبدیل ہوچکے ہیں اور انٹرنیٹ کی ترقی نے معلومات تک لوگوں کی رسائی آسان تر بنادی ہے، جس کے پیش نظر ہم نے براڈکاسٹ سے متعلق قانون میں ترمیم کرکے ملک کے اندر اس کی رسائی کی اجازت دی ہے، تاکہ امریکی عوام یہ پرکھ سکیں کہ حکومت بیرون ملک کیا نشر کر رہی ہے اور انہیں کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔