پاکستان میں یو ٹیوب پر پابندی کا ایک سال

انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے حامی کارکنوں نے مقبول وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ تک صارفین کی رسائی پر پابندی کے نتائج کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی فی الفور بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے حامی کارکنوں نے مقبول وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ کی بندش کے نتائج کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے اس تک رسائی پر عائد پابندی فی الفور اُٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیغمبرِ اسلام سے متعلق توہین آمیز فلم ’’اِنوسنس آف مسلمز‘‘ کے کچھ حصوں کی گزشتہ برس یو ٹیوب پر رونمائی کے بعد کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پرتشدد احتجاج کے تناظر میں اس وقت کے وزیرِ اعظم پرویز اشرف کی ہدایت پر 17 ستمبر کو ملک بھر میں اس ویب سائٹ تک رسائی پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

دسمبر میں یہ پابندی ’’عارضی‘‘ طور پر ختم کی گئی، تاہم گستاخانہ مواد کی بدستور موجودگی کی وجہ سے ویب سائٹ کو محض چند گھنٹوں بعد ہی بلاک کر دیا گیا۔

صارفین کو انٹرنیٹ پر دستیاب تمام مواد تک بلا روک ٹوک رسائی کی حامی غیر سرکاری تنظیم ’’بائیٹس فار آل‘‘ کے کوارڈینیٹر فرحان حسین نے پاکستان میں یو ٹیوب پر پابندی کا ایک سال مکمل ہونے پر منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کا اقدام اُن کی نظر میں بنیادی انسانی حقوق پر پابندی کے زمرے میں آتا ہے۔

’’جمہوری معاشرے کے لیے اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہوتی ہے تو یہ پابندی اس حق پر بہت شدید حملہ ہے ... اگرچہ جمہوری معاشرہ قیام پزیر ہو چکا ہے، لیکن قومی سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں آمرانہ رجحانات اب بھی موجود ہیں۔‘‘

فرحان حسین کے بقول یو ٹیوب پر پابندی کے بے حد منفی تنائج مرتب ہوئے ہیں، اور اس عمل سے متاثر ہونے والوں میں شعبہ درس و تدریس سے منسلک افراد اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے لوگ، خصوصاً سیاحت کی صنعت سے جڑے افراد، سرِ فہرست ہیں۔

’’ہمارا مطالبہ ہے کہ بنا کسی سینسر شپ کے یو ٹیوب تک رسائی بحال کر دی جائے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ مواد تک صارفین کی رسائی محدود کرنے کے کسی فیصلے پر اکتفا کرنا حکومت کو اظہارِ رائے کی آزادی پر اپنی مرضی کے مطابق پابندی لگانے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا۔

بائیٹس فار آل نے یو ٹیوب کی بحالی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہیں، لیکن فرحان حسین نے شکوہ کیا کہ حکومت کے متعلقہ عہدے دار طلبی کے باوجود عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔

وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن خان نے گزشتہ ماہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ یو ٹیوب کی بحالی کا فیصلہ بین الوزارتی کمیٹی کرے گی۔

اس معاملے سے متعلق موجودہ صورتِ حال جاننے کے لیے انوشہ رحمٰن اور وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیگر عہدے داروں سے منگل کو رابطے کی کوششیں بار آور ثابت نا ہو سکیں۔

اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکومت کے متعلقہ عہدے داروں نے توہین آمیز مواد تک ملک میں صارفین کی رسائی محدود کرنے کے لیے ’’فلٹرز‘‘ متعارف کروانے کا عندیہ دیا تھا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی انتظام مکمل نتائج کی ضمانت نہیں دے سکتا۔