ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کیا؟

  • قمر عباس جعفری

طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ متقی حال ہی میں ایران کے دورہ پر

افغانستان میں طالبان کو کنٹرول سنبھالے ہوئے اب کوئی پانچ ماہ ہونے والے ہیں۔ لیکن پاکستان سمیت جو دنیا سے طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ کسی بھی ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا ہے۔

امریکہ سمیت دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام متحدہ افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد تو مہیا کر رہے ہیں، طالبان سےبات بھی کر رہے ہیں، لیکن انہیں جائز حکمراں کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

حال ہی میں افغانستان کے ایک اعلی سطحی وفد نے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خاں متقی کی قیادت میں ایران کا دورہ کیا۔ جس کے بعد ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے ایک نیوز کانفرنس میں واضح طور پر کہا کہ وفد سے بات چیت مثبت رہی۔ لیکن ایران ابھی اس مرحلے پر نہیں پہنچا ہے، جہاں وہ حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کر لے۔یہی صورت حال دنیا کے دوسرے ملکوں کے علاوہ افغانستان کے پڑوسی چین، روس، بھارت، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے سلسلے میں بھی ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ طالبان اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے سبب اعتماد کھو رہے ہیں۔

ڈاکٹر مارون وائن بام کا تعلق مڈ ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے ہے اور افغنستان سے متعلق امور پر انکی گہری نظر ہے۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جانا۔ امریکہ سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں کے ہاتھ میں ایسا واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے طالبان کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ان وعدوں کو پورا کریں، جو انہوں نے بقول ان کے بہ زور طاقت افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد، حقوق انسانی خواتین کے حقوق اور اقلیتوں وغیرہ کے حقوق کے سلسلے میں کیے تھے اورجب تک طالبان اپنے وعدے پورے نہ کریں وہ کس طرح اس ہتھیار کو اپنے ہاتھ سے جانیں دیں گے۔

SEE ALSO: ایران میں افغان متحارب دھڑوں کی ملاقات، متقی اور احمد مسعود کی شرکت 

ان کا کہنا تھا کہا افغان عوام کے مصائب سے تو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اور انہیں دور کرنے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن طالبان کو من مانی کرنے کی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔

طالبان نے دُنیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جامع حکومت بنائیں گے۔ اور افغان معاشرے کے ہر طبقے کو اس میں نمائندگی دی جائے گی۔ اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ انہوں درحقیقت ایسا نہیں کیا۔ اور محض مخصوص فکر کے حامل لوگوں کو شریک اقتدار کیا گیا۔

ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ دنیا انہیں تسلیم کرنے کے لیے اس وقت تک انتظار کرے گی جب تک کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدوں کو پورا نہیں کرتے۔

افغانستان کے مسائل حل کرانے کے لیے اور طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے پاکستان بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں اس نے اسلامی ملکوں کی کانفرنس بھی بلائی لیکن انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بریگیڈیر سعد نذیر کے بقول اس اجلاس میں نہ صرف یہ کہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ افغانستان میں جو انسانی مصائب ہیں اس سلسلے میں مدد کے لیے وعدے وعید تو ہو گئے مگر ابھی تک اس قدر مدد کی فراہمی کے آثار نظر نہیں آتے جتنی کہ متمول اسلامی ملک کر سکتے ہیں۔

بریگیڈیر سعد نذیر کا کہنا تھا کہ دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے ان پر دباؤ رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ انسانی حقوق اور خواتین وغیرہ کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کریں۔

Your browser doesn’t support HTML5

باڑ اکھاڑنے کے واقعات: 'طالبان بتانا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے محتاج نہیں'

خیال رہے کہ افغانستان میں تقریباً روزانہ کی بنیادوں پر خواتین اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کرتی ہیں۔ میڈیا سے متعلق لوگ پریشان ہیں۔ سابقہ حکومتوں سے وابستہ لوگ چھپتے پھر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ایک جانب تو افغانستان کے اندر داعش اور ٹی ٹی پی جیسی قوتیں سرگرم عمل ہیں اور دوسری جانب القاعدہ بھی فعال ہونے کی کوشش کر رہی ہے، دوسرے دہشت گروپ بھی وہاں موجود ہیں۔ چین اور روس جیسے پڑوسی ملکوں کی بعض تنظیموں کے لوگ بھی وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں، جنہیں وہ ممالک اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں تو ایسے میں وہ ضمانتیں چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہو گی لیکن عملاً صورت حال مختلف نظر آتی ہے جیسے کہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں پاکستان میں بڑھ رہی ہیں اور طالبان انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں خطےکا کوئی بھی ملک انہیں تسلیم کرنے کے لیے کیسے تیار ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں ٹی ٹی پی کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ، پاکستان کے ساتھ ڈیوینڈر لائن کا تنازعہ،پاکستان کی جانب سے سرحدوں پر لگائی جانے والی باڑ کا اکھاڑا جانا اور خود افغانستان کے اندر تشدد ایسے واقعات ہیں جن کے بعد خاص طور سے افغانستان کے پڑوسی ملکوں کا چوکنا ہونا اور طالبان کے وعدوں پر اعتماد نہ کرنا بالکل منطقی ہے۔

بریگیڈیر سعدنذیر کا مزید کہنا تھا کہ طالبان بہرحال ایک زمینی حقیقت ہیں۔ اور ان کو انگیج رکھ کر ہی خطے کو عدم استحکام سے بچایا جا سکتا ہے۔

افٖغانستان میں شدید سردی کے موسم میں لاکھوں باشندوں کے پاس خوراک اور چھت موجود نہیں ہے،

راشدنقوی ایران میں مقیم ایک پاکستانی صحافی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں بقول ان کے فکری سیاسی اور معاشرتی انتشار کی جو صورت حال ہے اس میں دنیا کے دوسرے ملک تو دور کی بات ہے، پاکستان سمیت کوئی پڑوسی ملک بھی وہاں کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا دنیا یہ سمجھتی کہ نہ تو وہاں جمہوریت ہے، نہ خلافت ہے، بس افراد کا ایک مجموعہ ہے جو اپنی مرضی کے اصولوں کے تحت حکومت کر رہا ہے۔

گزشتہ کوئی پانچ ماہ کے دوران جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے افغانستان میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی ہے۔ اور خاص طور سے طالبان کی جانب سے اپنے وعدے پورے نہ کیے جانے کے سبب اور اندرون ملک اقلیتوں پر حملوں، خواتین اور صحافیوں وغیرہ کے احتجاجات کے سبب ہر ملک انہیں تسلیم کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں اور اس سے طالبان کے صرف نظر نے ان پڑوسی ملکوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا طالبان ان دہشت گرد گروپوں پر قابو پا سکیں گے۔ کیا وہ کوئی مستحکم حکومت قائم کر سکیں گے جن سے دنیا اپنے معاملات طے کر سکے۔ اور ماہرین کے بقول جب تک ایسا نہیں ہوتا۔ اس وقت تک طالبان حکومت کے تسلیم کیے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور انہیں تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں وہ کس راستے پر نکل سکتے ہیں، یہ ان کے سابقہ دور حکومت کی تاریخ سے عیاں ہے۔ اور یوں دنیا ایک دوہری مشکل کا شکار ہو سکتی ہے جس کا کوئی فوری حل نظرنہیں آتا۔

ادھر طالبان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت میں افغانستان میں آباد دوسری قومیتوں کو بھی شامل کیا ہے اور وہ شریعت کے مطابق انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کر رہے ہیں۔

اس کے باوجود، بقول ان کے، دنیا کے کئی ملکوں میں ان کے اثاثوں کو منجمد کرکے ان کے لیے معاشی مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں؛ اور یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں افغانستان کی جائز حکومت کی حیثیت سے تسلیم کرے۔