واہگہ کا علاقہ ’مہردین‘ کے بغیر اداس اور سونا ہوگیا

مہردین

ہمیشہ سے مہردین کے کپڑوں کا رنگ وہی سبز و سفید ، ہلالی پرچم والا ہوتا تھا ۔ یہی لباس اس کی مخصوص پہچان بھی بن گیا تھا۔ ایک دو برس سے نہیں ۔کم و بیش 20 سال سے مہردین ہر روز یہاں آکر بے تیغ سپاہی کا فرض انجام دیتا تھا
پاکستان اور بھارت کی سرحدوں سے متصل ’واہگہ‘ کا علاقہ مہر دین کے بغیر سونا اور اداس ہوگیا ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے کہئیے یا کئی عشروں سے مہردین اس سرحدی علاقے کی رونق بناہوا تھا۔

سفید داڑھی، درمیانہ قد اور گہری رنگت ۔ تیز دھوپ میں رہتے رہتے اس کی جلد کا رنگ بھی ’ڈارک‘ ہوگیا تھا۔ زندگی کی بے شمار شامیں اور جانے کتنی صبحیں اس نے اسی سرحد پر پاکستانی رینجرز کے ساتھ ساتھ، بارڈر سیکورٹی فورسز کی نظروں کے سامنے گزار دیں تھیں۔وہ بغیر کسی عہدے والا، بغیر کسی ہتھیار والا، سپاہی تھا۔اپنی سرحدوں کابے نام سپاہی ۔

مہردین کے انتقال کو 2 روز ہوگئے ۔ اگرچہ اس کی موت سے کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا کیوں کہ اب بھی واہگہ بارڈر پر ہر روز دونوں ممالک کے درمیان پرچم کشائی کی پروقار تقریب ہوتی ہے ،خصوصاً شام کے اوقات میں دونوں ممالک کے چاق و چوبند دستے اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے نہایت عزت و احترام سے اتارتے ہیں، انہیں کئی طے دے کر رکھ لیا جا تا ہے، لیکن ایک خلاہے، ایک ویرانی ہے ، ایک سناٹا ہے جو مہردین کو یاد کررہا ہے۔

یہ تقریب سرحدوں پر ہر شام پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے کے لئے دور دور سے آنے والے سینکڑوں لوگوں کے لئے نہایت پر لطف احساس ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب دونوں ممالک کے فوجی مخصوص فوجی انداز میں آگے بڑھتے ہیں ، زمین پر پوری طاقت سے ایڑھی مارتے ہیں، جوش و محب وطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر پرچم کو سیلوٹ کرتے ہیں تو دونوں طرف کے تماشائی مہردین کے ہم آواز ہوکر فلک شگاف نعرے لگتے تھے،اگر ذرا بھی یہ نعرے ٹھنڈے پڑنے لگتے تو مہردین ان میں اور جوش بھر دیتا۔ایسے میں تماشائیوں کے ہاتھ تالیاں بجابجاکر سرخ ہوجاتے ہیں ،اور ملی نغموں سے فضاء گونج اٹھتی ہے۔

مہردین ہم وطن تماشائیوں کی رگوں میں وطن کی محبت کے گہرے جذبات کو ابھارنے اور جھنڈے لہرا لہرا کر لوگوں کو فلک شگاف نعرے لگانے پر اکستانے میں ماہر تھا۔وائس آف امریکہ کا نمائندہ خود اس بات کاچشم دید گواہ ہے۔

ہمیشہ سے مہردین کے کپڑوں کا رنگ وہی سبز و سفید ۔ہلالی پرچم والا ہوتا تھا ۔ یہی لباس اس کی مخصوص پہچان بھی بن گیا تھا۔ ایک دو برس سے نہیں ۔کم و بیش 20 سال سے مہردین ہر روز یہاں آکر بے تیغ سپاہی کا فرض انجام دیتا تھا۔

تقریب ختم ہوتی تو لوگ اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر’مہردین عرف چاچا پاکستانی‘کے پاس جاتے ۔شاباشی دیتے۔کچھ لوگ ’بخشش‘ بھی دیتے ، بچے ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانا فخر محسو س کرتے تھے۔تقریباً 12سال تک یہی’ بخشش ‘یا ’ٹپ‘ مہردین کا ذریعہ معاش تھا۔

بلال گنج ، ملک پاڑہ لاہور میں مقیم مہردین کے قریبی رشتے دار محمد شفیق نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے فون پر خصوصی بات چیت میں بتایا کہ مہردین نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی ۔ وہ واہگہ بارڈر کے اس پاربھارت کے ایک چھوٹے سے سرحدی گاوٴں میں 1922ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے تمام سگے بھائی اور بہنیں بھی وہیں مقیم ہیں لیکن وہ خود اپنی ایک رشتے کی بہن سے ملنے پاکستان آئے تھے اور پھر کبھی واپس نہیں گئے۔

محمد شفیق نے بتایا کہ مہردین کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا ۔وہ چندرامہ گاوٴں میں مقیم اپنی اسی کزن کے گھر رہتے تھے البتہ کبھی کبھار دیگر رشتے داروں مثلاً بھانجوں وغیرہ کے گھر چلے جاتے تھے۔محمد شفیق کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً20سالوں تک مسلسل واہگہ بارڈر جاتے آتے رہے اور ’بخشش‘ پر ہی گزرا کرتے رہے البتہ موت سے آٹھ یانو سال پہلے ان کی ایک سرکاری ادارے میں رجسٹریشن ہوئی جہاں سے انہیں باقاعدہ تنخواہ ملنے لگی۔

محمد شفیق کا کہنا ہے کہ ان کی مجموعی تنخواہ 14ہزار5 سو 50 روپے تھی ۔ ان کا انتقال اتوار 21اکتوبر کی صبح ہوا جبکہ تدفین اسی رات آٹھ بجے چندرامہ گاوٴں میں ہی ہوئی۔ مرنے والے دن ہی انہیں زندگی کی آخری تنخواہ ملی تھی۔

شفیق کے مطابق ، انہیں فوجی حکومت پسند تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں عمرے پر بھی بھیجا تھا۔ان کا کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں تھا ۔ وہ کچھ دنوں سے بخار میں مبتلا تھے لیکن ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں تھے۔

مہردین مر گیا۔۔۔لیکن شاید سرحد کے دونوں جانب ان کی آواز ہمیشہ گونجتی رہے گی ۔وطن کی محبت سے سرشار نعروں کے روپ میں ۔۔۔ملی نغموں کی شکل میں ۔اور ان لوگوں کی نظروں میں جنہوں نے برسوں تک مہردین کو اپنے مخصوص لباس اور انداز میں ہنستے مسکراتے دیکھا تھا۔