پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں پیر کو بھی سیاحوں کا داخلہ بند ہے جہاں انتظامیہ کی جانب سے سڑکوں کو کلیئر کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔
مری میں ہفتے کو شدید برف باری کے دوران 22 سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کو صوبائی حکومت نے 'سانحہ' قرار دیا ہے۔ اس سانحے کی وجوہات جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی سات روز میں تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنی تجاویز بھی دے گی۔
اپوزیشن کا مری واقعے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ
پاکستان کی حزبِ اختلاف نے مری واقعے کے حوالے سے پنجاب حکومت کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے مطالبے پر معمول کی کارروائی معطل کر کے مری واقعے پر بحث کی گئی۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ سانحہ مری میں معصوم جانوں کے ضیاع پر پوری قوم اشکبار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ حکومت کی نااہلی کا ایک اور ثبوت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سانحہ مری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اگر مری سانحہ پر صرف ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر بھول جائے گی تو یہ ان متاثرہ خاندانوں اور قوم کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا عجب وطیرہ ہے کہ یہ متاثرہ افراد کو ہی مورد الزام ٹھیراتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ سیالکوٹ موٹروے واقعے پر کہا کہ متاثرہ خاتون تنہا سفر کیوں کر رہی تھی اور اب مری سانحہ پر کہتے ہیں کہ لوگوں نے مری آتے ہوئے موسم کی صورتِ حال کیوں نہیں دیکھی۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ وہ توقع کر رہے تھے کہ حزبِ اختلاف کے رہنما قومی رہنما کے طور پر سانحہ مری پر گفتگو کریں گے جس سے یکجہتی کی فضا پیدا ہو گی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے روایتی الزام تراشی کے علاؤہ کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میں مری میں ایک لاکھ 64 ہزار گاڑیاں داخل ہوئیں جس کی وجہ سے صورتِ حال بے قابو ہو گئی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ریسکیو کی کامیاب کوششیں کی گئیں اور 24 گھنٹے میں مری کی تمام شاہراہوں کو برف سے صاف کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امدادی کاموں کے دوران وفاقی وزرا مری میں موجود رہے۔
مری میں ہفتے کو شدید برف باری کے دوران 22 سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کو حکومت نے 'سانحہ' قرار دیتے ہوئے اس کی وجوہات جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی سات روز میں سفارشات مکمل کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ماضی میں برف باری سے پہلے انتظامات کیے جاتے تھے لیکن حکومتی ذمہ داران انتظامی معاملات کی بجائے ٹوئٹر پر مصروف رہے اور دور دراز تک انتظامات کا نام و نشان نہیں تھا۔
لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاالرحمٰن کے مطابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مری واقعے سے متعلق حکام نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کر دی ہے جس کے مطابق برف میں پھنسی گاڑیوں میں مرنے والے سیاحوں کی موت کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تین سے سات جنوری تک ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں اور سات جنوری کو سولہ گھنٹوں میں چار فٹ برف پڑی۔ اسی اثنا میں سولہ مختلف مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ راستے بھی بند ہوئے۔
SEE ALSO: مری واقعہ: ’بنیادی سہولیات کی کمی سے اکثر سیاحوں کو رات گاڑیوں میں گزارنی پڑتی ہے’مری سانحے کے تدارک کے لیے صوبائی حکومت نے چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے جس کے سربراہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ظفر نصراللہ ہوں گے۔
کمیٹی میں دو صوبائی سیکریٹری علی سرفراز، اسد گیلانی سمیت محکمۂ پولیس کے اے آئی جی فاروق مظہر بھی شامل ہیں۔
تحقیقاتی کمیٹی کن سوالات کے جواب تلاش کرے گی؟
تحقیقاتی کمیٹی جن سوالات کا جواب تلاش کرے گی ان میں شامل ہے: محکمۂ موسمیات کی وارننگ کے باوجود جوائنٹ ایکشن پلان کیوں نہیں تیار کیا گیا؟ کیا تمام سیاحوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی گئی تھی یا کوئی وارننگ دی گئی تھی؟
مری کے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ کیا ٹریفک (گاڑیوں) کی تعداد کو گنا کیا اور جب گاڑیاں بڑھ گئی تو انہیں روکا کیوں نہیں گیا؟
کمیٹی اس سوال کا جواب بھی تلاش کرے گی کہ کیا کسی بحران کے لیے کوئی پلان ترتیب دیا گیا تھا؟ کیا کوئی کنٹرول روم بنایا گیا تھا؟ اسی طرح کیا مقامی ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کے ساتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے رابطہ قائم کیا گیا؟
کمیٹی یہ بھی جاننے کی کوشش کرے گی کہ ریسکیو آپریشن کتنا کامیاب رہا اور کتنی گاڑیوں کو نکالا گیا؟ اس بحران میں کیا کمی ہوئی اور کوتاہیاں کن کن افسران کی تھیں۔
مری کے راستوں کی بندش میں توسیع
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق کیپیٹل اتھارٹی نے مری جانے والی گاڑیوں کی پابندی میں پیر کی شب تک توسیع کر دی ہے۔ ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق پیر کی رات نو بجے تک مری میں کسی گاڑی کو داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ تاہم آگ بھجانے والی، امدادی کام کرنے والی گاڑیاں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہو گی۔
اسلام آباد سے مری جانے والے راستوں پر تین مختلف مقامات پر ناکہ بندی بھی کر دی گئی ہے۔
حکومت نے مری میں گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
متاثرین کے لیے امداد کا اعلان
پنجاب حکومت نے مری میں پیش آنے والے واقعے میں ہلاک ہونے افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے مجموعی طور پر تین کروڑ 35 لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے جاری ہونے والے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ سانحہ مری کے متاثرہ افراد کے لواحقین کو ایک کروڑ 76 لاکھ روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔
صوبائی حکومت نے مری کو ضلع بنانے کی منظوری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری طور پر ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے اتوار کو ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ سیاحوں کے رش کو کنٹرول کرنے کے لیے مری کے علاقوں سنی بینک اور جھیکا گلی میں دو پارکنگ پلازہ بنائے جائیں گے۔ ان پلازوں سے شٹل سروس کے ذریعے سیاحوں کو مال روڈ تک پہنچایا جائے گا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے مری میں دو نئے تھانوں کے قیام کی منظوری بھی دی ہے۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ مستقبل میں مری میں گاڑیوں اور سیاحوں کے داخلے کو کنٹرول کیا جائے۔ مخصوص حد سے زیادہ گاڑیوں اور لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
عثمان بزدار نے یہ بھی حکم دیا کہ مری میں زیادہ کرایہ وصول کرنے والے ہوٹلوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
معمولاتِ زندگی متاثر
مری میں شدید برف باری کے باعث تین روز بعد بھی معمولاتِ زندگی متاثر ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مری میں پانی اور بجلی کی فراہمی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی ہے جب کہ موبائل فون سروس بھی متاثر ہے۔
گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مری میں امدادی کارروائیاں اور ریسکیو و ریلیف آپریشن جاری ہے۔ علاقے میں پھنسے سیاحوں کی بڑی تعداد کو واپس روانہ کر دیا گیا ہے۔