بھارت کے یومِ جمہوریہ کی آمد پر کشمیر میں حفاظت کے غیر معمولی انتظامات

بھارت کے یومِ جمہوریہ کی آمد پر کشمیر میں حفاظت کے غیر معمولی انتظامات


بھارت کے یومِ جمہوریہ کی آمد سے پہلے جہاں پورے ملک میں حفاظت کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں، وہیں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس، نیم فوجی دستوں اور باضابطہ فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں تعینات فوجی دستوں کی طرف سے اچانک چھاپوں، تلاشی کی کارروائی اور کریک ڈاؤن کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

اِسی دوران کئی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں جب کہ سابق عسکریت پسندوں کو خود کو متعلقہ پولیس تھانوں میں پیش کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے یا پھر اُن کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کی سرگرمیوں کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ حفاظتی چوکیاں قائم کی گئی ہیں اور پولیس والے راہگیروں اور مسافر بسوں اور نجی گاڑیوں کو روک کر اُن میں سوار افراد کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

جموں سے موصولہ خبروں کے مطابق رنبیر سنگھ پورا کے سرحدی علاقے کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے، بی ایس ایس کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ 21اور22جنوری کی درمیانی شب پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر ایک چوکی کے نزدیک خار دار فصیل کو کئی جگہ کٹا ہوا پایا گیا۔ تاہم اِس موقع پر عسکریت پسندوں کی کوئی نقل و حرکت مشاہدے میں نہیں آئی۔

بعض عہدے داروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ تین یا چار عسکریت پسند سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جِس کے باعث پورے جموں ڈویژن میں ریڈ الرٹ کر دیا گیا ہے۔

اِسی دوران بھارت کے وزیرِ دفاع اے کے انٹونی نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ چند ایام کے دوران کشمیر میں بھارت پاکستان سرحد سے در اندازی کی نئی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ اُنھوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کشمیر یا اُس کے باہر، اُن کے اپنے الفاظ میں، دہشت گردی کی نئی کارروائیاں کی جاسکتی ہیں جِن کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو تیار رہنا ہو گا۔