انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا میں اتوار کو خودکش حملہ آوروں نے مسیحیوں کی تین عبادت گاہوں کے باہر دھماکے کیے جن میں کم ازکم دس افراد ہلاک اور 41 دیگر زخمی ہو گئے ہیں۔
ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے مبینہ طور پر 'جماعت انشعار الدولہ' کا ہاتھ ہے جو کہ شدت پسند تنظم داعش کے نظریات سے متاثر ایک گروپ ہے۔
گو کہ تاحال کسی فرد یا گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار واوان پروانتو کے مطابق اس گروپ نے "حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔"
بتایا جاتا ہے کہ سورابایا میں پولیس حکام نے تمام چرچز کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم بھی دیا ہے جب کہ شہر میں ہونے والے ایک بڑے 'فوڈ فیسٹیول' کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس سب سے بڑے مسلم میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی تنظیموں نے اتوار کو ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ایک مذہب بھی "اپنے مقاصد کے لیے تشدد کی توجیہ پیش نہیں کرتا۔"
ان تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے "فیصلہ کن اور فوری اقدام" کرے۔
انڈونیشیا کے اس دوسرے بڑے شہر میں اتوار کو یہ واقعات ایک ایسے وقت رونما ہوئے ہیں جب دو روز قبل ہی انڈونیشیا کی طرف سے پاکستان، افغانستان اور مقامی 70 علما نے ایک اجتماعی فتوے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اسلام کے اصولوں کے منافی قرار دیا تھا۔