بھارتی سپریم کورٹ نفرت انگیز تقاریر پر برہم: 'لوگوں سے کہا جاتا ہے پاکستان چلے جاؤ'

بھارت کی سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقریریں اور اشتعال انگیزی پھیلانے والے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے پر ریاستی حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگ رتنا پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر ریاستی حکومتوں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں رہ گئی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانش وروں نے سپریم کورٹ کے اس تبصرے کا خیرمقدم کیا ہے ۔

بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ جس دن سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے گا اس دن یہ نفرت انگیزی بند ہو جائے گی۔

ان کے بقول "ہم نے اپنے حالیہ فیصلے میں بھی کہا ہے کہ سیاست میں مذہب کی آمیزش جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔ شرپسند عناصر دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے روزانہ ٹی وی چینلز اور عوامی جلسوں میں منافرت انگیز تقریریں کر رہے یا بیانات دے رہے ہیں۔"

عدالت عظمیٰ نے ایسے لوگوں کے خلاف عدالتی حکم کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرنے پر توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے مذکورہ ریمارکس دیے۔ یہ درخواست کیرالہ کے انسانی حقوق کے ایک کارکن شاہین عبد اللہ نے دائر کی تھی۔

جسٹس ناگ رتنا نے پنڈت جواہر لعل نہرو اور اٹل بہاری واجپئی کی تقریروں کا حوالہ دیا اور کہا کہ آج ہم کہاں جا رہے ہیں۔ شرپسند عناصر ہر روز اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف توہینِ عدالت کے تحت ایکشن لیں۔کیا اب بھارت کے لوگوں میں ذرا بھی تحمل نہیں رہ گیا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم دنیا میں نمبر ون بننا چاہتے ہیں لیکن اندرون ملک ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ اگر ’بد اخلاقی‘ کا یہی عالم رہا تو آپ اس ملک کو دنیا میں نمبر ون نہیں بنا سکتے۔


جسٹس جوزف نے کہا کہ آج کسی کو بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان چلے جاؤ۔ دوسری کمیونٹی کے لوگوں نے اس ملک کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ہمارے بھائی بہنوں جیسے ہیں۔ ہم بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی نچلی سطح تک مت جائیں۔

جسٹس جوزف کے بقول "ہم آئین و قانون کے پابند ہیں۔ ہم توہین عدالت کے معاملے پر اس لیے سماعت کر رہے ہیں کہ ریاستیں ایکشن نہیں لیتیں۔ اگر ریاستیں خاموش رہیں تو پھر ہمیں ان کی کیا ضرورت ہے۔"

اس پر مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ ہم دوسری ریاستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن مرکز بے طاقت نہیں ہے۔ اس نے پاپولر فرنٹ آ ف انڈیا (پی ایف آئی) پر پابندی لگائی۔

سماعت کے دوران جسٹس جوزف اور تشار مہتہ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ مہتہ نے عدالت سے کہا کہ وہ ان عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے جنھوں نے ہندوؤں اور عیسائیوں سے کہا کہ وہ اپنی آخری رسومات کے لیے تیار رہیں۔

جسٹس جوزف نے مرکز اور مہاراشٹرا کی ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چار ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔ اب اس معاملے پر 28 اپریل کو سماعت ہوگی۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور سابق آئی اے ایس ہرش مندر نے سپریم کورٹ کے تبصرے کا خیرمقدم کیا اور اسے بہت اہم قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ سیاست میں بالکل اوپری سطح سے لے کر نچلی سطح تک ہیٹ اسپیچ کا جو سلسلہ ہے اس کو روکنے کے لیے نہ تو پولیس نے کوئی سخت کارروائی کی ہے اور نہ ہی عدلیہ نے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی نے ایک سروے کیا تھا جسے اس نے ’وی ئی پی ہیٹ اسپیچ‘ کہا ہے اور جو سینئر وزرا، بڑے سیاست دانوں اور ارکان پارلیمان و اسمبلی کی تقریروں کے سلسلے میں ہے۔ اس سروے کے مطابق 2014 کے بعد منافرت انگیزی میں 1100 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ کے اس تبصرے سے ایک امید بندھی ہے کہ شاید کوئی کارروائی ہو۔ ہمیں اس سلسلے میں اپنا مطالبہ دوہراتے رہنا چاہیے۔ اگر ہم مطالبہ بھی نہیں کریں گے تو ہمارے اداروں کی ناکامی اور زیادہ بے نقاب ہوگی۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کا جو ہمارا تجربہ ہے اس کے پیش نظر ہمیں اس کا بھروسہ کم ہے کہ عدلیہ ہیٹ اسپیچ کے سیلاب کو روکنے کے لیے کوئی سخت قدم اٹھائے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم براشت بڑھ رہی ہے، ہیومن رائٹس کمیشن

انسانی حقوق کی تنظیم ’فورم فار سول رائٹس‘ کے چیئرمین سید منصور آغا نے کہا کہ عدالت نے جن فرنج ایلیمنٹس کی ہیٹ اسپیچ کا ذکر کیا ہے ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو حوصلہ کہاں سے ملتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت کے وزرا اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں تو پھر چھوٹے کارکن کیوں خاموش رہیں گے۔ عدالت کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ پولیس ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔

اُنہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلی سماعت کے دوران منافرت انگیزی سے متعلق تمام پہلو سامنے آئیں گے۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہم آئین کے پابند ہیں۔ آئین میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن آج کل آئین کو اٹھا کر الگ رکھ دیا گیا ہے اور حکومت اپنی مرضی سے کام کر رہی ہے۔

مصنف اور دانشور ڈاکٹر انل دت مشرا کے مطابق کسی بھی شخص کو کسی دوسرے کی توہین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور منافرت انگیزی کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ سیاسی شخصیات عوام کے آئیڈیل ہوتے ہیں انہیں کبھی بھی غیر مہذب زبان کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق پہلے کے سیاست داں اپنی تقریروں سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تھے۔ لیکن اب تو سیاست داں بہت نچلی سطح پر اتر آئے ہیں۔ صرف وہی نہیں بلکہ ان کی نقل میں اساتذہ بھی غیر مہذب زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔

ان کے خیال میں اس وقت کی سیاست خود غرضی کی سیاست بن گئی ہے اور سیاست میں مذہب کا استعمال اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹرا کی ایک ہندو تنظیم ’سکل ہندو سماج‘ کی جانب سے گزشتہ چار ماہ کے دوران ریاست کے 36 اضلاع میں کم از کم 50 ریلیاں نکالی گئی ہیں جن میں اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی اور مبینہ لو جہاد اور لینڈ جہاد کے خلاف آواز بلند کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق ان ریلیوں میں ہندوؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کریں۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے خود کو ان ریلیوں سے الگ کر لیا ہے لیکن اس کے کئی ایم پیز اور ایم ایل ایز نے ان ریلیوں میں شرکت کی۔

ان ریلیوں کے خلاف ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان میں منافرت انگیزی نہیں ہو گی اور اگر ہو گی تو کارروائی کرے گی۔

ریاستی حکومت نے جب کوئی کارروائی نہیں کی تو کیرالہ کے انسانی حقوق کے کارکن نے عدالت عظمیٰ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی جس پر عدالت نے مذکورہ تبصرہ کیا۔