غیر ازدواجی جنسی تعلق جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

مذکورہ قانون کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلق قائم کرنے والے مرد کو پانچ سال کی جیل یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ البتہ عورت کو کوئی سزا نہیں ہوتی۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 'ایڈلٹری' یعنی شادی شدہ افراد کا غیر ازدواجی جنسی تعلق جرم نہیں اور اس حوالے سے آئین کی دفعہ 497 بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے جمعرات کو سنائے جانے والے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ شادی شدہ افراد کے اپنے ساتھی کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے جنسی اختلاط کو جرم قرار دینے والا 19 ویں صدی کا قانون شوہر کو مالک اور بیوی کو اس کی جائیداد قرار دیتا ہے۔

عدالت کے بقول یہ ایک من مانا قانون ہے جو عورت کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔ عدالت نے قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا ہے۔

مذکورہ قانون کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلق قائم کرنے والے مرد کو پانچ سال کی جیل یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ البتہ عورت کو کوئی سزا نہیں ہوتی۔

مذکورہ قانون کو بھارتی ریاست کیرالہ کے ایک رہائشی نے عدالت میں چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ ایڈلٹری میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں تو پھر سزا صرف مرد کو کیوں دی جاتی ہے؟

درخواست گزار نے اس قانون کو صنفی امتیاز پر مبنی قرار دیتے ہوئے کالعدم ٹہرانے کی استدعا کی تھی۔

بھارت میں رواں ماہ یہ دوسرا معاملہ ہے جسے عدالت نے جرم کے دائرے سے باہر کیا ہے۔

اس سے قبل بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والا ایک قانون ختم کردیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 158 سال پرانا ایڈلٹری سے متعلق قانون دقیانوسی ہے اور آئین کی دفعات 14 اور 21 کی خلاف ورزی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر ازدواجی جنسی تعلق، رشتۂ ازدواج کو ختم کرنے کی بنیاد تو بن سکتا ہے، لیکن اسے جرم نہیں کہا جا سکتا۔

البتہ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایسے کسی تعلق کی بنیاد پر کوئی شخص خود کشی کرتا ہے تو اس عمل کو خود کشی کے لیے اکسانے والا قرار دیا جا سکتا ہے۔

نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سماجی مطالعات کے شعبے کی اسسٹنٹ پروفیسر عذرا عابدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستانی سماج ایک روایتی سماج ہے جہاں قدروں کی بڑی اہمیت ہے۔

ان کے بقول بھارت میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لہٰذا اس فیصلے کا خیر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔

پروفیسر عذرا کے بقول اس فیصلے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جو بات کہی گئی ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔ اس فیصلے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ عمل طلاق کی بنیاد بنا رہے گا۔

عذرا عابدی نہ یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ عورتوں کی جانب سے غیر ازدواجی تعلق قائم کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرے گا جو کہ ہندوستانی معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے۔ اس سے خاندان بھی متاثر ہوگا اور سماج بھی۔

بھارتی حکومت نے مقدمے میں عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ دفعہ 497 ازدواجی رشتے کی پاکیزگی کا تحفظ کرتی ہے جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا ہے۔

حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل پنکی آنند نے عدالتی فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو سامنے رکھ کر قانون کو دیکھنا چاہیے نہ کہ مغربی معاشرے کے نقطۂ نظر سے۔

لیکن عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چین، جاپان اور برازیل میں ایڈلٹری جرم نہیں ہے اور یہ مکمل طور پر ایک نجی معاملہ ہے۔