بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کے روز ایک متفقہ فیصلے میں یہ قرار دیا ہے کہ 'ایڈلٹری' یعنی ’’شادی شدہ افراد کا غیر ازدواجی جنسی تعلق‘‘ جرم نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو صارفین تاریخی قرار دے رہے ہیں, اور فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
معروف بھارتی صحافی سدھانند دھومے نے لکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے محض تین ہفتے بعد ہی غیر ازدواجی جنسی تعلق کو بھی جرائم کی فہرست سے نکال دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 ایسے برس کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب بھارتی ججوں نے ’وکٹورین‘ عہد کی دَم گھُٹنے والی اخلاقی اقدار کو دفن کر دیا ہے، جنہوں نے ہندوستانی سماج کو 150 برس سے اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔
صحافی ابھیجیت مجمدار نے لکھا ہےکہ یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔ غیر ازدواجی جنسی تعلق طلاق کی وجہ تو ہو سکتا ہے مگر اب کوئی جرم نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی اس وجہ سے شادی ختم کر دے کہ اسے کسی اور سے محبت ہو گئی ہے، مگر دو بالغ افراد کے باہمی رضامندی پر مبنی جنسی تعلق کو جرم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
Excellent judgment. #Adultery is ground for divorce but is not a criminal offence. Fine to end marriage contract because one started loving someone else, but how could a consensual love affair be a criminal offence?Another prudish Victorian-era colonial law scrapped. #Section497
— Abhijit Majumder (@abhijitmajumder) September 27, 2018
’انڈیا ٹوڈے‘ ٹیلی وژن چینل کی نیوز اینکر پلومی ساہا نے بینچ میں شامل جسٹس چندرا چند کا جملہ نقل کیا کہ ’’سماج عورت پر پاکدامنی کا ذمہ تھوپ دیتا ہے اور اسے اونچے سنگھاسن پر بٹھاتا ہے۔ اس پر چار دیواری کی قید لگاتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ وہ پاک صاف ہو، مگر اسے ریپ کرنے، تشدد کرنے، پیٹ میں ہی مار دینے اور اسے اپنے ہی گھر میں تفریق کا سامنا کرنے پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔‘‘
J. Chandrachud: “Society imposes impossible virtues on a woman. Raises her to a pedestal. Confines her to spaces. Says she should be pure, but has no qualms to rape her, assault her, commit female foeticide, discriminate against her within a home.” #AdulteryVerdict
— Poulomi Saha (@PoulomiMSaha) September 27, 2018
اس فیصلے پر کچھ لوگ اعتراض کرتے بھی پائے گئے جیسے ’دہلی کمیشن فار ویمن‘ کی چئیرپرسن سواتی مالی وال نے لکھا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اختلاف کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے غیر ازدواجی جنسی تعلق کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اب شادی کے بندھن کا کیا تقدس رہ گیا ہے؟
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ بجائے اس کے کہ سپریم کورٹ دفعہ 497 میں سے جنسی تفریق کو ختم کرتی، اور ایسے جنسی تعلق کو دونوں جنسوں کے لئے برابر جرم قرار دیتی، سپریم کورٹ نے اس فعل کو ہی جرائم کی فہرست سے باہر نکال دیا ہے۔ انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہےکہ یہ فیصلہ عورت مخالف ہے۔
Totally disagree with SC on adultery. They%27ve given license to married couples 4 adulterous relationships. What%27s sanctity of marriage then?Instead of making 497 gender neutral, criminalising it both for women and men they have decriminalised it totally! Anti women decision.
— Swati Maliwal (@SwatiJaiHind) September 27, 2018
اس ٹویٹ کے جواب میں ’آل انڈیا پراگریسو وومن ایسوسی ایشن‘ کی سیکریٹری کویتا کرشنن نے لکھا ہے کہ اس فیصلے میں غیر ازدواجی جنسی تعلق کی کھلی چھٹی نہیں دی گئی بلکہ اس کی بنیاد پر طلاق لی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سول جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ’فیمنسٹ گروپ‘ کی رائے اس سے مختلف نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں تحریر کیا کہ اس سے پہلے سزا محض اس شخص کو ہوتی تھی جو کسی کی بیوی سے تعلق قائم رکھتا تھا، کیوںکہ یہ تصور ہوتا تھا کہ اس غیر شخص نے شوہر سے اس کی بیوی کو ’چرایا‘ ہے، یعنی عورت اپنے شوہر کی ملکیت تصور ہوتی تھی۔
انہوں نے لکھا کہ صرف جبری طور پر قائم کئے گئے تعلق کو ہی جرم تصور کرنا چاہئے۔
Six tweets to explain why the tweet by @SwatiJaiHind on #AdulteryVerdict is wrong on basic facts, and reeks of patriarchal %27social morality%27, I. E. moral policing, not constitutional morality that Ambedkar upheld. And no, moral policing is NEVER pro women, it%27s always anti women. pic.twitter.com/IVGNFUyDOT
— Kavita Krishnan (@kavita_krishnan) September 27, 2018
قانون دان کرونا نندے نے اس معاملے کو سادہ الفاظ میں یوں ڈھالہ کہ:
’’باہمی رضامندی سے قائم جنسی تعلق ٹھیک ہیں،
جبری طور پر قائم جنسی تعلق ریپ ہیں‘‘۔
It%27s simple. Consensual sex =fine Non consensual = rape #Adultery https://t.co/NsYaZDHTqA
— Karuna Nundy (@karunanundy) September 27, 2018
اس فیصلے کی گونج سرحد پار پاکستانی سوشل میڈیا میں بھی سنائی دی گئی۔
ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف اے کیانی نے لکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ جہاں ایسے فیصلے دے رہی ہے کہ غیر ازدواجی جنسی تعلق جرم نہیں، بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے اور ہم جنسی تعلق جرم نہیں وہیں پاکستانی سپریم کورٹ یہ کہتی دکھائی دے رہی ہے کہ جو بھی ڈیم فنڈ کی مخالفت کرے گا وہ غدار ہوگا۔
Indian Supreme Court: "Adultery is not a crime. Husband is not master of wife.""Being gay is not a crime".Pakistan Supreme Court: "Not donating to #DamFund, or disapproving it, is treason".
— A.Kiyani (@Andromeda_JY) September 27, 2018