چین اور بھارت کی متنازع سرحدی حدود میں گاؤں کی تعمیر کون اور کیوں کر رہا ہے؟

بھارتی ریاست اروناچل پردیش میں چین کی سرحد کے قریب قائم ایک بودھ عبادت گاہ ۔ فائل فوٹو

امریکی محمکہ دفاع کی اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد کہ چین بھارتی ریاست اروناچل پردیش کی سرحد پر ایک سو گھروں پر مشتمل گاوں تعمیر کر رہا ہے، بھارت نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔یہ سرحدی حدود چین اور بھارت کے درمیان متنازعہ ہیں۔دونوں ملکوں کی جانب سے اس علاقے پر ملکیت کا دعوی کیا جاتا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے دارالحکومت نئی دہلی میں جمعرات کو کہا کہ چین کئی سالوں سے بھارت کے سرحدی علاقوں کے ساتھ تعمیراتی کام کر رہا ہے۔ ان میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر چین نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔

"بھارت نے نہ تو اپنے علاقے کے غیرقانونی قبضے کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی ہم نے چین کے بلاجواز دعووں کو قبول کیا ہے۔"

بھارتی ترجمان پینٹاگون کی 2021 کی سالانہ رپورٹ کے متعلق سوالوں کا جواب دے رہے تھے جس میں چین کی عسکری اور دفاعی پیش رفت بھی شامل ہیں۔ اسی رپورٹ میں چین کی بھارت کے ساتھ سرحد کے ساتھ تعمیراتی کاروائیوں کا ذکر ہے۔

پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی اور بیجنگ کے مابین عسکری اور سفارتی سطحوں پر جاری مذاکرات کے باوجود چین حکمت عملی کے تحت اضافی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ وہ دونوں ملکوں کو تقسیم کرنے والی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر اپنے دعووں کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ چین نے 2020 میں کسی وقت نیم آزاد خطے تبت اور بھارت کی اروناچل ریاست کے درمیان متنازعہ علاقے میں ایک سو گھروں پر مشتمل گاون بنایا۔

Your browser doesn’t support HTML5

لداخ تنازع: بھارتی کشمیر میں فوجی نقل و حرکت میں اضافہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرحد کے ساتھ یہ اور انفراسٹرکچر کے دوسرے ترقیاتی کام بھارتی حکومت اور میڈیا میں پریشانی کا باعث ہیں۔

مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر پر مبنی بھارتی ریاست اروناچل پردیش کی سرحد پر بننے والے اس گاوں کی خبریں اس سال کے اوائل میں سامنے آئی تھیں جبکہ بھارت اور چین کے درمیان ہمالیہ کے ایک اور متنازعہ سرحدی علاقہ میں تناو جاری تھا۔

بھارت میں دفاعی ماہرین نے اسےاشتعال انگیز اقدام کے طور پر لیا کیونکہ یہ علاقہ متنازعہ سرحدی حدود میں واقع ہے۔ چین کا دعوی ہے کہ اروناچل پردیش اس کے جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنے ملک کا اٹوٹ انگ قرار دیتاہے۔

اس وقت چین کی وزارت خارجہ نےاس تعمیر کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اس کی اپنی سرزمین پر ایک معمول کی تعمیر ہے جو کہ اس کی خود مختاری کا معاملہ ہے اور یہ تنقید سے ماورا ہے۔

سلامتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے اروناچل پردیش سے لداخ کے 3,488 کلو میٹر طویل علاقے کے ساتھ سرحد پر چھ سو سے زیادہ گاوں تعمیر کیے ہیں۔ اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ان تعمیرات کا مقصد چین کا ہمالیہ کے متنازعہ علاقوں پر اپنے علاقائی دعووں کو مضبوط کرنا ہے۔

بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف بپن راوت کہتے ہیں کہ چین یہ گاوں فوجیوں اور سویلیئن لوگوں کو لائن آف کنٹرول کے قریب رکھنے کے لیے بنا رہا ہے اور وہ ایسا خاص طور پر بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ کے بعد کر رہا ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ بھارت نےسرحد کے اپنی طرف کوئی بھی ایسا کوئی گاوں تعمیر نہیں کیا۔

راوت نے کہا کہ چین نہ کہ پاکستان، بھارت کا بڑا دشمن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان عدم اعتماد اور شک و شبہات سرحدی تنازعہ کے حل کے آڑے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ایک طویل موسم سرما کے لیے سامان اکٹھا کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ دونوں ممالک نے اروناچل پردیش سمیت ہمالیہ کے علاقوں کے ساتھ اپنی عسکری موجودگی کو بڑھا دیا ہے۔

بھارت نے یہ کہا ہے کہ وہ ملکی سلامتی کی ضروریات کے پیش نظر انفرا اسٹرکچر اور روزگار میں بہتری لانے کے لیے بھی کام کر رہاہے۔

تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت فوج اور اسلحے کی نقل و حمل کے لیے سٹرکوں اور پلوں کی تعمیر کرنے میں آگے بڑھ رہا ہے، نئی دہلی چین کی تیز رفتار انداز میں انفراسٹرکچر کی مضبوطی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔