|
سری نگر _ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تشدد کے تازہ واقعات میں پولیس نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے کالعدم لشکرِ طیبہ کے مبینہ کمانڈر کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ہفتے کی صبح سری نگر کے خان یار علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپ شام تک جاری رہی۔
عہدیداروں کے مطابق دوطرفہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک عسکریت پسند ہلاک اور چار سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ فورسز کے آپریشن کے دوران نجی مکان میں آگ لگ گئی جب کہ اس سے پہلے دھماکوں کی آواز دور دور تک سنائی دی۔
سری نگر میں اس طرح کا واقعہ ایک طویل عرصے کے بعد پیش آیا ہے اور اس کے نتیجے میں شہر میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے خان یار اور ملحقہ علاقوں کی ناکہ بندی کر دی۔
شہر میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان آخری مقابلہ 15 ستمبر 2022 کو پیش آیا تھا جس میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔
ایک پولیس عہدیدار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے ہفتے کو صبح گیارہ بجے کے قریب خان یار میں لشکرِ طیبہ کے ایک اہم کمانڈر اور اس کے ساتھیوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع ملنے پر آپریشن شروع کیا۔
عہدیدار نے بتایا کہ دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں جموں و کشمیر پولیس کے شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کے دو اور وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے دو اہلکار زخمی ہوئے جب کہ ایک عسکریت پسند کی گولیوں سے چھلنی لاش بھی ملی ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسند کی شناخت لشکرِ طیبہ کے ایک اہم کمانڈر عثمان بھائی کے طور پر ہوئی ہے اور وہ ایک پاکستانی شہری تھا۔
جموں و کشمیر پولیس ماضی میں بھی کئی واقعات میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری شورش سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ہلاک ہونے والا کمانڈر دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے جن میں ایک پولیس انسپکٹر منظور احمد کا قتل بھی شامل ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس وی کے بردھی کے مطابق ہلاک کمانڈر عثمان بھائی پولیس کو مطلوب اہم ترین دہشت گردوں میں شامل تھا۔
پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ہفتے کو سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان شمالی ضلع بانڈی پور کے ایک دور دراز گاؤں میں بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے جس کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
ہفتے کو ہی وادیٔ کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ کے لارنو شانگس علاقے میں بھی عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی جس میں عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں جن میں ایک مقامی کشمیری اور دوسرا غیر ملکی باشندہ شامل ہے۔
پر تشدد واقعات کا یہ تازہ سلسلہ علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ کے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شروع ہوا ہے۔
پرتشدد واقعات میں اضافے کی تحقیقات کا مطالبہ
نیشنل کانفرنس کو جموں کشمیر اسمبلی کے لیے دس سال کے طویل عرصے کے بعد حال ہی میں کرائے گئے انتخابات میں بھاری کامیابی ملی تھی۔ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر پر چھ برس پہلے نافذ کیے گیے نئی دہلی کے براہِ راست راج کا خاتمہ ہو گیا تھا اور علاقے میں زمامِ حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں آگئی تھی۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کردی تھی اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنا دیا تھا۔ یہ علاقے یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری تشدد نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجز میں ایک ہے ۔ اگرچہ جموں و کشمیر ہنوز وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ ہے اور لاء اینڈ آرڈر وفاقی وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ پرتشدد واقعات میں اچانک اضافہ عمر عبد اللہ حکومت کی عوام میں شبیہ کو متاثر کرسکتا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کے والد اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پرتشدد واقعات میں اچانک اضافے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفتے کو سری نگر میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو میں فاروق عبداللہ نے کہا " عوامی حکومت کے قیام سے پہلے اس طرح کے واقعات پیش نہیں آرہے تھے۔ تشدد میں اس اچانک اضافے کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ یہ پتا چلا جائے کی یہ واقعات کس کی ایما پر کرائے جارہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیر میں تشدد کے حالیہ واقعات سیکیورٹی کی ناکامی نہیں ہے۔ ان کے بقول سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کو موزوں جواب دے رہی ہیں۔
اتر پردیش کے شہر کانپور میں نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ فورسز پوری طرح چوکس ہیں اور وقت آئے گا جب جموں و کشمیر میں دہشت گردی کا قلع قمع ہوگا اور علاقہ تیزی کے ساتھ ترقی کرے گا۔