کیا مودی حکومت کشمیری رہنماؤں سے مذاکرات کرے گی؟

بھارت کے نئے وزیر داخلہ امیت شاہ نئی دہلی میں میڈیا کے نمائندؤں کے ساتھ، یکم جون 2019

بھارتی عہدیداروں نے عندیہ دیا ہے کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری لیڈروں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وزیر داخلہ امیت شاہ کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دو روزہ دورے کے بعد کیا جائے گا۔

امیت شاہ وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ریاست کے اپنے پہلے دورے پر 30 جون کو سری نگر پہنچنے والے تھے۔ لیکن نئی دہلی میں حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ اب بدھ 26 جون سے ریاست کا دورہ کریں گے۔

ذرائع کے مطابق وادی کشمیر میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران وہ ریاست کے سیاسی پیش منظر اور حفاظتی صورت حال کا جائزہ لیں گے اور اس مقصد کے لیے گورنر ستیہ پال ملک، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت بھارت کے قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں کے اہم قائدین، فوج، پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔

وہ سری نگر میں منعقد کی جانے والی ایک سیکورٹی میٹنگ کی صدارت بھی کریں گے اور کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کی اہم عبادت گاہ امر ناتھ گھپا پر حاضری دیں گے۔

ریاست کے سیاسی حلقوں میں امیت شاہ کے اس دورے کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ وہ ریاست کو درپیش مختلف معاملات بالخصوص وادی کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت اور اس کا توڑ کرنے کے لیے حکومت اور حفاظتی دستوں کی طرف سے جاری کوششوں کے سلسلے میں ایک سخت موقف رکھتے ہیں۔ نیز یہ دورہ سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق کی طرف سے دیے گئے اس بیان کے چند دن بعد کیا جا رہا ہے کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کا وہ گروپ جس کے وہ چیئرمین ہیں، کشمیر میں بحالی امن کے لیے نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تیار ہے۔

میر واعظ عمر کے اس بیان کا ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن لوگوں نے کچھ عرصہ پہلے بھارت میں حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں شامل ایک اہم سیاسی لیڈر اور وفاقی وزیر رام ولاس پاسوان کے لیے اپنے دروازے بند کیے تھے، وہی اب حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اسے ایک خوش آئند تبدیلی قرار دیا تھا۔

اگرچہ بھارت کی وفاقی حکومت نے تا حال اس سلسلے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ حکمران بی جے پی کے قومی نائب صدر اور امور کشمیر کے نگران اویناش رائے کھنہ نے، جو سری نگر کے دورے پر تھے، کہا ہے کہ اُن کی پارٹی سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حریت کانفرنس کے ساتھ بات چیت کرنے کی "میراث" کو آگے لے جانے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے آئین کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا، حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات بھارت کے آئین کے دائرے ہی میں ہو سکتے ہیں۔

امن مذاکرات کی اہمیت اور اس سلسلے میں حریت کانفرنس کی طرف سے اختیار کیے گئے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے میر واعظ عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا "ہمارا روز اول ہی سے یہ موقف ہے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے گفت و شنید سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام فریقوں کو امن کی بحالی کے عمل میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی انتخابات میں ایک بڑے مینڈیٹ کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آ گئے تو ہم نے کہا تھا انہیں اپنے پاکستانی ہم منصب عمران خان کے ساتھ مل کر بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمار اصولی موقف ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے".

اس استفسار پر کہ آیا اُن کے حالیہ بیان اور گورنر ملک کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت یا گورنر انتظامیہ نے ان کے ساتھ رابط کیا ہے یا نہیں، میر واعظ عمر نے کہا، "نہیں، کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ میں نے ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارتی حکومت مذاکرات شروع کرنے کے لیے کوئی پہل کرتی ہے تو ہم اس کا مثبت جواب دیں گے۔ گورنر نے اسی پس منظر میں بات کی ہو گی۔ ہم نے جو کہا تھا۔ ہم وہ شروع ہی سے کہتے آئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومتِ ہند کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ کیا وہ پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کے لیے تیار ہے جیسا کہ واجپائی صاحب کی حکومت کے دوران ہوا تھا۔ کیا اُس عمل کو آگے لے جایا جائے گا۔ حکومت نے تاحال اس بارے میں ہمیں کوئی اطلاع دی ہے اور نہ کسی نے ہم سے رابطہ قائم کیا ہے

بی جے پی لیڈر اویناش رائے کھنہ کے اس بیان پر کہ مذاکرات صرف بھارتی آئین کے تحت ہی ہو سکتے ہیں، ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے میر واعظ عمر نے کہا، "ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ ماضی میں بھی جب حریت کانفرنس نے نئی دہلی اور اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کی تو وہ غیر مشروط تھی۔ ہم نے جب وزیرِ اعظم واجپائی کے ساتھ ملاقات کی تو اس مکمل تفہیم کے ساتھ کی کہ بات چیت انسانیت کے دائرے میں اور بلا شرط ہو گی۔ وہ بات چیت ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ ہم پاکستان بھی گئے اور وہاں کی قیادت کے ساتھ بھی غیر مشروط بات چیت کی۔ ہم اس عمل کو آگے لے جانے کے خواہاں ہیں۔ اسی تناطر میں اگر بات ہوتی ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘‘