بھارتی کشمیر میں تازہ ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال

فائل

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حفاظتی دستوں کی حالیہ کار روائیوں میں 13 مبینہ عسکریت پسندوں اور تین عام شہریوں کی ہلاکت کے خلاف پیر کو عام ہڑتال ہوئی-

ہڑتال کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کی تھی۔

اتحاد نے بھارت پر کشمیر میں نوجوانوں کی نسل کشی کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ نئی دہلی پرکشمیر میں طاقت کے بے دریخ استعمال کو روکنے اور مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کے لئے دباؤ ڈالے۔

اتحاد کی اپیل پر اتوار کی شام سری نگر میں لوگوں نے کئی مقامات پر موم بتیاں جلاکر انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر احتجاج کیا۔

ہڑتال کی وجہ سے پیر کو مسلم اکثریتی وادئ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بازار بند رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہی۔ تعلیمی اداروں میں بھی تعطیل رہی۔

وادی میں پیر کو لگاتار دوسرے دن بھی ٹرین سروس احتیاط کے طور پر بند رکھی گئی۔ ہڑتال کی وجہ سے بینکوں اور سرکاری دفاتر میں بھی کام کاج متاثر ہوا۔

اس دوران نیشنل کانفرنس کے لیڈروں اور کارکنوں نے شہری ہلاکتوں کے خلاف سری نگر میں ایک جلوس نکالا۔

جلوس کے شرکاء نے حکومت سے سرکاری دستوں کی طرف سے کی ہونے والی انسانی حقوق کی بے دریغ پامالیوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

نیشنل کانفرنس کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے اور 1947 سے کئی بار اقتدار میں رہی ہے۔ –یہ بعض شرائط کے تحت کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی توثیق کرتی ہے تاہم پیر کو پارٹی کے ایک سینئر لیڈر اور سابق وزیر علی محمد ساگر نے نئی دہلی پر کشمیریوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کا الزام لگایا۔

ادھر پیر کو نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا کہ نئی دہلی پاکستان سے تو دور کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہورہی ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کشمیر کے حوالے سے نئی دہلی کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں نے ریاست کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

ریاست کی ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ خون خرابے اور قبرستان کی خاموشی نافذ کرنے کی بجائے کشمیر کے مسئلے کو کرتارپور سرحد کھولنے جیسے اقدامات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو دلیرانہ، راست باز اور انسانی ہمدردی پر مبنی اقدامات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کرتار پور کاری ڈور ایک ایسے دن کھولا جارہا ہے جب 2008 میں ممبئی میں دہشت گردی نے کئی انسانی جانیں لےلی تھیں۔ اگر ہم اس طرح کا جواب دینا جاری رکھتے ہیں تو کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے قریب واقع کشمیری ہندوؤں کے ایک متبرک مذہبی مقام شاردا پیٹھ کو بھارتی کشمیر ی ہندوؤں کے لئے کھولنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔