ہفتے کے روز سری نگر کی تاریخی درگاہ حضرت بَل میں عید کی نماز کی ادائگی کے فوراً بعد مشتعل نوجوانوں کے ایک گروپ نے پولیس کی ایک چوکی اور ایک گاڑی میں آگ لگا دی۔ پولیس نے ہوا میں فائرنگ کرکے صورتِ حال کو قابو میں کر لیا۔
اِس موقع پر بھگ دڑ مچنے سے اور پولیس کی طرف سے کیے گئے ہلکے لاٹھی چارج میں چھ افراد کو چوٹیں آئیں۔
عہدے داروں نے اِس واقعے کےلیے سرکردہ آزادی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی کے حامیوں کو ذمے دار ٹھہرایا۔
یاد رہے کہ سید گیلانی نے نمازِ عید، درگاہ حضرت بَل میں ادا کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پولیس نے اُنھیں عید سےدو دِن قبل گرفتار کرلیا، یہ کہہ کر کہ وہ امن و امان کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔تاہم، اُنھیں عید الفطر کے اجتماعات کے فوراً بعد سنیچر کی سہہ پہر رہا کردیا گیا۔
اِسی دوران، سری نگر کی عید گاہ میں نمازِ عید کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے میر واعظ مولوی عمر فاروق نے اچانک یہ اعلان کردیا کہ اجتماع کے اختتام پر لوگ تاریخی لال چوک کا رُخ کریں گے۔
اُن کے اِس اعلان پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں لوگ جِن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی، لال چوک کی طرف مارچ کرنے لگے۔
قوم پرست جموں و کشمیر فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک، حریت کانفرنس گیلانی کے قائم مقام سربراہ نثار حسین اور جمیعت اہلِ ہدیث کے صدر مولانا شوکت احمد شاہ بھی اُن میں شامل ہوگئے۔
لال چوک پر ایک گھنٹے تک دھرنہ دیا گیا جِس کے دوران میر واعظ عمر نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ تاریخی جگہ ہے جہاں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیری عوام کے ساتھ حقِ خودارادیت دلانے کا اعلان کیا تھا۔اُنھوں نے بھارت اور پاکستان پر کشمیر پر مرتکز بات چیت کے عمل کا آغاز کرنے اور اِس میں کشمیریوں کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
اگرچہ لال چوک کا یہ مظاہرہ اور اِسی طرح کے دوسرے مظاہرے پُرامن طور پر اختتام پذیر ہوئے، کچھ نوجوانوں نے قریب واقع ایک سرکاری عمارت اور ٹریفک پولیس کی چوکیوں میں آگ لگا دِی۔ سری نگر کے باہر بھی پولیس تھانوں اور گاڑیوں پر حملے کیے گئے۔
پولیس سربراہ نے کہا ہے کہ حفاظتی دستوں کو صبرو تحمل سے کام لینے اور مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔