تشدد کےبعد بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے مینڈھرعلاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور سرحدی ضلعے پونچھ کےاِس چھوٹے سے قصبے کو فوج کے حوالے کیا گیا ہے، جب کہ خود پونچھ میں منگل کی سہ پہر سے نافذ کرفیو جاری ہے۔
مینڈھر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چند قدامت پسند عیسائیوں کی طرف سے 9/11کی برسی کے موقعے پر قرآن مجید کی واشنگٹن میں مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے خلاف طلبہ نے قصبے کے مرکزی چوک سے ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ جلوس جب ایک ایسے علاقے کی طرف بڑھنے لگا جہاں ایک عیسائی مشنری اسکول واقع ہے تو پولیس اِس کے راستے میں آگئی۔
جلوس کے شرکا نے مزاحمت دکھائی تو پولیس نے اُن پر گولی چلادی۔ دو طالب ِ علم موقعے ہی پر ہلاک ہوگئے جب کہ ایک درجن سے زائد زخمی افراد میں سے تین اسپتال لے جاتے ہوئے چل بسے۔
پولیس عہدے داروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین پر فائرنگ اِس لیے کی گئی کیونکہ اُنھوں نے عیسائی مشنری اسکول پر حملہ کیا تھا۔ لیکن، عینی گواہوں کا کہنا ہے کہ جلوس ابھی اسکول سے کافی دور تھا جب پولیس والوں نے گولی چلا دی۔
اِس واقعے کے بعد، علاقے میں بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک اُٹھا جِس کے دوران غم و غصےسے بپھرے ہجوموں نے کئی سرکاری عمارتوں، دفاتر اور گاڑیوں میں آگ لگا دی۔ حالات پر قابو پانے کے لیے، مینڈھر میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور پولیس کو سڑکوں پر سے ہٹا کر فوج بٹھا دی گئی ہے۔ پونچھ شہر میں مشتعل مظاہرین نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے دفتر میں آگ لگا دی۔
اُدھر، وادیٴ کشمیر میں جہاں تین ماہ سے جاری شورش کے دوران تقریباً 90افراد پولیس فائرنگ میں مارے جاچکے ہیں، گذشتہ چار دِن سے بغیر کسی نرمی کے نافذ کرفیو کی وجہ سے 60لاکھ کی آبادی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ کئی علاقوں سے لوگوں نے فون پر بتایا کہ اُنھیں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی سخت کمی کا سامنا ہے جب کہ بیماروں کو اسپتالوں تک لےجانے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
دریں اثنا، کرفیو کے باوجود بدھ کو احتجاجی مظاہروں اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا جب کہ بعض مقامات پر بھارت مخالف مظاہرین نے سرکاری عمارتوں اور دوسری املاک کو نشانہ بنایا۔