بھارت نے اتوار کو غزہ میں فلسطینیوں کی امداد کے لیے ساڑھے چھ ٹن طبی اشیا اور آفات سے نمٹنے کے لیے درکار 32 ٹن امداد روانہ کر دی ہے۔
بھارت کی ارسال کی گئی امداد مصر کے راستے غزہ پہنچے گی۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ بھارت کی فضائیہ کا ایک سی 17 طیارہ امداد لے کر مصر روانہ ہوا۔
یہ امدادی سامان مصر اور غزہ کے درمیان واقع رفح کی گزر گاہ کے ذریعے فلسطینیوں تک پہنچے گا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس امداد میں جان بچانے کی بنیادی ادویات، سرجیکل آلات، خیمے، بستر، ترپالیں، سینیٹری کے لیے درکار اشیا، پانی کو صاف کرنے والی گولیاں اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔
بھارت کی طرف سے یہ امداد وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تین دن قبل فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد ارسال کی گئی ہے۔
جمعرات کو ہونے والی اس گفتگو میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو درکار ضروری امداد کی فراہمی جاری رکھیں گے۔
نریندر مودی نے غزہ میں قائم اسپتال پر ہونے والی بمباری کے نتیجے میں اموات پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نے محمود عباس سے گفتگو میں اسرائیل فلسطین تنازعے پر نئی دہلی کے دیرینہ اور اصولی مؤقف کا اعادہ بھی کیا تھا۔
غزہ کی عسکری تنظیم حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے ایک ساتھ اچانک اور غیر متوقع حملے کیے تھے۔ ان حملوں میں 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرکے بمباری شروع کر دی تھی جس سے چار ہزار فلسطینیوں کی اموات کی اطلاعات ہیں جب کہ دس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
دوہفتے سے زائد سے جاری ناکہ بندی اور بمباری سے غزہ میں اشیاء ضروریہ کی قلت ہے جب کہ اسپتالوں میں علاج کا نظام تباہ ہونے کے قریب ہے۔
غزہ لگ بھگ دو ہفتوں سے ایندھن، بجلی کی فراہمی اور خوراک کی اشیا سمیت دیگر ضروریات کی ترسیل بند ہ تھی البتہ گزشتہ روز ایک قافلہ اور اتوار کو دوسرا قافلہ ٹرکوں پر کچھ امدادی سامان لے کر غزہ پہنچا ہے۔
مزید جانیے
غزہ میں زخمیوں کا علاج مشکل؛ ڈاکٹر سرکہ، گھریلو سوئیاں اور کپڑا استعمال کرنے پر مجبورحماس کی فنڈنگ کہاں سے آتی ہے؟امدادی ٹرک رفح گزرگاہ سے غزہ میں داخل ہونے لگےزخمیوں اور دیگر بیماروں کے علاج میں استعمال ہونے والے سامان کے علاوہ صاف پانی کی بھی شدید کمی ہے۔
درد کو کم کرنے اور انفیکشن سے بچنے کے لیے بنیادی اشیا ختم ہو رہی ہیں جب کہ اسپتالوں کے جنریٹرز کے لیے ایندھن ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔