زرخیز زرعی زمینوں کے وسیع رقبے پر دفاعی تجاوزات میں جاری اضافہ دیکھ کر بھارتی کسانوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔
بھارتی سرحد کے اندربوبیہ نامی گاؤں کے کھیتوں میں تعمیراتی سامان سے لدے آدھے درجن کے قریب ٹرک آکر رکے ، تو بریام سنگھ اور ان کے گاؤں کے دیگر باسیوں کو احساس ہوگیا کہ ان کی زرعی زمیںوں پر ملکیت کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔
ناراض کسانوں کا فوری رد عمل یہ تھا کہ انھوں نے مل کر ٹرکوں کے ٹائروں سے ہوا نکال دی، اور کنٹریکٹروں اور مزدوروں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں تھا۔
بریام سنگھ نے خبر رساں ادارے رائٹرزکو بتایا کہ ان کے گاؤں میں فوجی تعمیرات میں اضافہ ہورہا ہے اور زرعی زمینیں سکڑتی جا رہی ہیں۔ اس بات کی تائید بریام سنگھ کے گرد جمع ان کے ساتھیوں نے بھی کی۔
بریام سنگھ کا گاؤں پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی 50 فی صد زرعی زمینیں فوجی قبضے کی نذر ہو چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق،ایک مقامی تنظیم، ’سرحدی بہبود کمیٹی‘ بارڈر کے ساتھ بسنے والے مکینوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔جس کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اور بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) نے گزشتہ 15 برسوں کے دوران اپنی دفاع مضبوط کرنے کے لئے ،جموں و کشمیر کے سرحدی اضلاع کی زمینیں حاصل کر لی ہیں۔
ماہرین کے مطابق، دونوں ملکوں کے بیچ، دفاعی باڑ تقریباً 900 کلومیٹر (560 میل) طویل ہے، جو کئی کلومیٹر سرحد سے بھارت کے اندر تک پھیلی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں کئی ایک دیہات ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں؛ جبکہ پاکستان کی جانب زرعی زمین کے وسیع رقبے پر باڑ لگ چکی ہے۔
بوبیہ گاؤں کے رہنے والوں نے بتایا کہ جموں و کشمیر کی پاکستان سے ملنے والی سرحد پر واقع اس زرخیز زمین پر کانٹے دار تار اور بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں، جس کے باعث سیکڑوں کسان اپنی زمینوں تک نہیں جا پاتے، اور انہیں ان کی زمینوں کے ‘نو گو’ ایریا بننے کا پیشگی انتباہ یا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
بریام سنگھ کے الفاظ میں ’’یہ بات کسانوں کی معاشی تکالیف بڑھا رہی ہے، جن کے پاس متبادل ذریعہ معاش نہیں ہے‘‘۔
بھارتی حکومت پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ، ’دفاعی دیوار‘ تعمیر کرنا چاہتی ہے۔
منصوبے کے تحت، 32 فٹ (10 میٹر) اونچا مٹی کا پشتہ کھڑا کیا جائے گا، تاکہ سرحد سے ملحقہ بھارتی دیہات کے باسیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، جنھیں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں اکثر جانی نقصان کا خطرہ رہتا ہے، جس کا الزام دونوں ملک ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔
ساتھ ہی، بھارتی وزارت دفاع سرحد کے کچھ حصوں کو مزید محفوظ بنانے کے لیے نگرانی کا جدید ترین نظام نصب کرنا چاہتی ہے، جہاں فوج تعینات نہیں کی جا سکتی۔ اس منصوبے کا اعلان گزشتہ برس کیا گیا تھا۔
کتھوا شہر میں قائم ’سرحدی بہبود کمیٹی‘ کے ارکان کا کہنا ہے کہ ہزاروں ایکڑ پر مشتمل زرعی زمین اب سرحدی باڑ کے حوالے ہو چکی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ مقامی منتخب نمائندوں کی اب جموں کشمیر کے سرکاری کاموں میں کم ہی شنوائی ہوگی۔
رائٹرز کی رپورٹ میں جموں کے ڈویژنل کمشنر سنجیو ورما کے فون انٹرویو کا ذکر ہے، جس میں انہوں نے بتایا کہ کسانوں کو ان کی زمینوں کا معاوضہ دیا جائے گا ۔
تکنیکی طور پر کسان اپنی زمینوں پر خار دار تاروں کے باوجود پہنچ سکتے ہیں، لیکن سرحدی بہبود کمیٹی کے نائب صدر بھارت بھوشن کا کہنا ہے کہ خاردار باڑھ کے درمیان بنی چیک پوائٹس دن کے مخصوص اوقات میں ہی کھولی جاتی ہیں، جس کی وجہ سےکسانوں کو اپنے کھیتوں تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔
کمیٹی کے صدر نانک چند کا کہنا ہے کہ دو ہزار چار میں جب باڑھ لگائی گئی تھی ، تو وہ اپنی آٹھ ایکڑ زمین سے محروم ہو گئے تھے ۔ اور جو معاوضہ ملا اس میں وہ کوئی نیا رقبہ خریدنے کے قابل نہیں تھے ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی زمین نہیں۔
پونچھ ضلعے کے بہروتی گاؤں کے مکینوں کو ڈر ہے کہ ان کی اگلی نسل اپنی آبائی زمین کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جائے گی ۔
بوبیہ گاؤں سے اٹھارہ کلومیٹر دورنانگا گاؤں میں چاول کاشت کرنے والے میر چند کہتے ہیں 'ہم امید کھو چکے ہیں کہ بھارت پاکستان کے درمیان کبھی امن ہوگا۔ نہ تو ہمارے پاس تحفظ ہے اور نہ ہی روزگار'.
کشمیر کی متنازع ریاست کے کچھ حصے بھارت جبکہ دیگر پاکستان کے زیر انتظام ہیں، جبکہ دونوں ہی ملک کشمیر کے دعوے دار ہیں۔
پانچ اگست کو بھارت نے ملک کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شق کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔