بیجنگ اولمپکس کی مشعل بردار ریلی میں گلوان وادی میں سرحدی جھڑپ کے دوران زخمی ہونے والے چین کے فوجی کو شریک کرنے پر بھارت نےایونٹ کی افتتاحی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ا ارندم باگچی نے کہا ہے کہ چین میں بھارتی سفارت خانے کے ناظم الامور جمعے کو بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے اور نہ ہی اختتامی تقریب میں شریک ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ گلوان وادی میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں زخمی ہونے والے فوجی اہل کار کو اولمپکس کی ٹارچ ریلی میں بطور مشعل بردار شریک کرنے کا چین کا اقدام ’افسوس ناک‘ ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کے مطابق ٹارچ ریلی میں پیپلز لبریشن آرمی کے رجمنٹ کمانڈر چی فباؤ کو سرمائی اولمپکس کی ٹارچ ریلی کے مشعل برداروں میں شامل کیا گیا ہے۔ چی فباؤ 15 جنوری 2020 کو گلوان وادی میں بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہو گئے تھے۔
گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ کے دوران زخمی ہونے والے چی فباؤ کو اولمپکس کی ٹارچ ریلی میں شامل کرنے کے فیصلے کو بھارت میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے رکن منیش تیواری کا کہنا ہے کہ گلوان وادی میں زخمی ہونے والے فوجی کو اولمپکس کے مشعل برداروں میں شامل کرکے چین نے واضح پیغام دیا ہے۔
China is sending a clear message in the Choice of Galwan belligerent Qi Fabao as Torch bearer for Winter OlympicsGovt wanting to subvert any Discussion on China in Parliament is understandableWhat is not is opposition playing along for 21 months now? https://t.co/sP53eU8pB2
— Manish Tewari (@ManishTewari) February 3, 2022
بھارتی صحافی ابھیشیک بھلا نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ لداخ تنازع پر چین کی جارحانہ ابلاغی جنگ جاری ہے۔
انہوں نے لکھا کہ چین نے اس جھڑپ میں اپنے فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق میں وقت لگایا تھا لیکن اب گلوان میں سر پر زخم کھانے والے رجمنٹ کمانڈر چی فباؤ کو اولمپکس ریلی کا مشعل بردار بنا دیا ہے۔
And China’s aggressive information warfare continues on the Ladakh tussle. They took a while to announce their dead but now Qi Fabao, PLA regiment commander who sustained head injury in Galwan clash is a torchbearer at Beijing Winter Olympic Torch Relay. Reports @globaltimesnews pic.twitter.com/DOnDxHPPBr
— Abhishek Bhalla (@AbhishekBhalla7) February 2, 2022
ایک اور بھارتی صحافی عادل برار نے لکھا ہے کہ چین چی فباؤ کو اپنی قوم پرستی کی علامت کے طور پر پیش کرنے کے لیے تیار کررہا ہے۔ اس لیے مشعل برداروں میں چی فباؤ کی شمولیت حیرت کی بات نہیں۔ بھارت کو اولمپکس کی سرکاری سطح پر حمایت ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔
Qi Fabao was slowly being prepared to become the mascot of new Chinese nationalism. So I wasn%27t surprised to see him carrying the Olympic torch. I have said it before that Delhi shouldn%27t have given the official backing to the Olympics.
— Aadil Brar (@aadilbrar) February 3, 2022
گلوان وادی میں چین کا نقصان
درایں اثنا بھارتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں آسڑیلیا کے اخبار ’دی کلیکس‘ کی ایک رپورٹ بھی زیرِبحث ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2020 میں گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد چین کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار سے زائد تھی۔
آسٹریلیا کے اخبار نے جن چینی محققین اور بلاگرز کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع کی ہے ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ بدھ کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے گلوان وادی میں دریا عبور کرتے ہوئے متعدد فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
خیال رہے کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سرحدی علاقے پر کشیدگی کا آغاز 10 مئی 2020 کو ہوا تھا۔ اس دن جنوبی سکم میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی۔
اسی بارے میں
مشرقی لداخ میں چین کے حالیہ اقدامات پر بھارت برہم کیوں ہے؟افواج کی نقل و حرکت میں اضافہ، کیا چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی پھر بڑھ رہی ہے؟لداخ میں بھارت چین تنازعے سے پشمینہ اون کی صنعت خطرے میں پڑ گئیبعدازاں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان 15 جون 2020 میں ہونے والی جھڑپ میں فریقین کو نقصان اٹھانا پڑا جس میں بھار ت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس فروری میں چین نے اپنے گلوان میں چار فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی اور ان کے لیے اعزازات کا اعلان بھی کیا تھا۔
بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے سینیئر ایگزیکٹو ایڈیٹر گورو ساونت نے آسٹریلوی اخبار کی اس حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی گلوان میں اپنی فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو تسلیم نہیں کرتی لیکن چی فباؤ کو مشعل بردار بنا کر اپنی فوج کو خوش کررہی ہے۔
After failing to acknowledge a large number of #PLA soldiers killed in #Galwan & also winter casualties, #China hands over a lollipop to PLA by making Qi Fabao, Regiment Cdr, injured in Indian Army%27s counter attack to push back the PLA at Galwan, a winter #Olympics torch bearer. https://t.co/xNgtNVm4Mu
— GAURAV C SAWANT (@gauravcsawant) February 2, 2022
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گلوان میں چین کو شرمناک ناکامی سامنا کرنا پڑا۔ چین کے صدر شی جن پنگ کے ہاتھ پی ایل اے کے 44 فوجیوں سے رنگے ہوئے ہیں۔
گلوان وادی میں فوجیوں کی ہلاکتوں کی اس حالیہ رپورٹ پر چین کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
سفارتی بائیکاٹ
امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن سینیٹر جم رش نے بھی اولمپکس ریلی میں فوجی اہلکار کی شرکت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں ںے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ بہت شرمناک بات ہے کہ بیجنگ نے ایک ایسے شخص کو اولمپکس کے لیے مشعل برداروں میں شامل کیا ہے جو 2020 میں بھارت پر حملے کرنے اور ایغوروں کی نسل کشی کرنے والی فوجی کمانڈ کا حصہ ہے۔ امریکہ ایغور کی آزادی اور بھارت کی خود مختاری کی حمایت جاری رکھے گیا۔
It%27s shameful that #Beijing chose a torchbearer for the #Olympics2022 who%27s part of the military command that attacked #India in 2020 and is implementing #genocide against the #Uyghurs. The U.S. will cont. to support #Uyghur freedoms & the sovereignty of India.
— Senate Foreign Relations Committee Ranking Member (@SenateForeign) February 3, 2022
واضح رہے کہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے چین کی مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کیا ہے۔ان ممالک کے کھلاڑی اولمپکس میں شریک ہورہے ہیں البتہ اعلیٰ حکام اس کی افتتاحی تقریب میں شریک نہیں ہوں گے۔
بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق چین نے ان ممالک کے بائیکاٹ کو کھیلوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش قرار دیا تھا لیکن اب وہ گلوان وادی میں زخمی ہونے والے اہل کار کو ٹارچ ریلی میں شریک کررہا ہے جس کا مقصد اس تنازع پرعوامی توجہ برقرار رکھنا ہے۔ جب کہ چین اور بھارت کے درمیاں ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ پر حالات معمول پر لانے کے لیے دونوں ممالک میں مذاکرات جاری ہیں۔
بھارت نے بیجنگ میں ہونے والے ونٹر اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا ہے اور اس کا صرف ایک کھلاڑی ان مقابلوں میں شامل ہو رہا ہے۔ البتہ بھارت کا کوئی اعلیٰ حکومتی اور سفارتی عہدے دار اولمپکس کی افتتاحی اور اختتامی تقریب میں شریک نہیں ہوگا۔