سرینگر: جنرل راوت کا اعلیٰ فوجی کمانڈروں سے بند کمرے میں اجلاس

دریں اثنا، بھارتی فوج نے کشمیر میں سرگرم 12 ایسے عسکریت پسندوں کی تصویریں ان کے ناموں اور دوسرے کوائف کے ساتھ جاری کر دی ہیں، جن کے لیے، اُس کا کہنا ہے کہ یہ ’’انتہائی مطلوب‘‘ ہیں

بھارتی بّری فوج کے سربراہ، جنرل بِپن راوت نے جمعرات کے روز سرینگر پہنچ کر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تعینات اعلیٰ بھارتی فوجی کمانڈروں اور بھارت کی شمالی اور مغربی کمان میں ان کے ہم منصبوں کے ساتھ بند کمرے میں ملاقات کی اور جیسا کہ ایک فوجی ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ علاقے کے اندر اور حد بندی لائین کے ساتھ ساتھ پوری بھارت-پاکستان سرحد پر پائی جانے والی حفاظتی صورتِ احوال اور بھارتی مسلح افواج کی آپریشنل تیاری کا جائزہ لیا۔


یہ جنرل راوت کا گزشتہ ایک ماہ کے دوراں شورش زدہ کشمیر کا تیسرا اور 31 دسمبر 2016 کو بھارتی فوج کے 27ویں سربراہ کا عہدہ سنبھالے کے بعد چھٹا دورہ ہے۔


بھارتی ذرائع ابلاغ کے مُطابق، سات اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے ساتھ جنرل راوت کی یہ میٹنگ پہلے نئی دہلی میں ہونے والی تھی، لیکن مقامِ اجتماع بعد میں سرینگر منتقل کیا گیا، تاکہ، ان کے بقول، ’’قوم تک یہ پیغام پہنچایا جاسکے کہ بھارتی مسلح افواج کو کشمیر کے حالات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے– نیز، فوج اسے یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ کشمیر میں بھارت کی سالمیت اور خود مختاری کا دفاع کرنے اور علاقے میں امن کی بحالی کے وعدے پر کاربند ہے‘‘۔


یہ اجلاس ایک ایسے موقعے پر ہوا ہے جب متنازعہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں تقسیم کرنے والی حد بندی لائین پر مُقابل افواج پھر لڑ پڑی ہیں اور اس دوران، اطلاعات کے مطابق، ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں سے کی گئی فائرنگ اور مارٹر بموں کی شیلنگ کی زد میں آکر پاکستانی کشمیر میں کم سے کم دو شہری ہلاک اور پانچ زخمی اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے پونچھ اور راجوری اضلاع میں بھارتی فوج کی انجیئنرنگ سروس کا ایک مزدور ہلاک اور ایک ڈرائیور اور بھارتی سرحدی حفاظتی دستے ’بی ایس ایف‘ کے ایک سپاہی زخمی ہوگئے ہیں۔


دونوں ملکوں نے ماضی ہی کی طرح ایک دوسرے پر سرحدوں پر نومبر 2003 سے نافذ فائیر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ میں پہل کرنے کا الزام عائید کیا ہے، جبکہ اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفترِ خارجہ بُلا کر ’’بِلا اِشتعال بھارتی فائرنگ پر بھرپور احتجاج کیا گیا‘‘۔ اِدھر جموں میں بھارتی فوج کے ترجمان لینفٹننٹ کرنل منیش مہتا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’پاکستانی فوج کی طرف سے بِلا اشتعال شروع کی گئی فائرنگ کا دندان شکن جواب دیا جا رہا ہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ بھارتی عہدیداروں نے ’’جوابی فائرنگ میں بٹھل اور بھمبر سیکٹروں میں کم سے کم پانچ پاکستانی فوجیوں کو ہلاک اور نصف درجن کو زخمی کرنے‘‘ کا دعویٰ کیا ہے۔


دریں اثنا، بھارتی فوج نے کشمیر میں سرگرم 12 ایسے عسکریت پسندوں کی تصویریں ان کے ناموں اور دوسرے کوائف کے ساتھ جاری کر دی ہیں، جن کے لیے، اُس کا کہنا ہے کہ یہ ’’انتہائی مطلوب‘‘ ہیں۔

ان عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ سے ہے اور انہیں بھارتی فوج نے ’’خونخوار دہشت گرد‘‘ قرار دیکر، ’’انہیں زندہ یا مردہ پکڑنے والوں کے لئے بھاری نقدی انعامات کا بھی اعلان کر دیا ہے‘‘۔


انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں کے نام ان کے ایک ساتھی اور بھارتی کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر سبزار احمد بٹ کی فوج کے ساتھ ہوئی۔ ایک جھڑپ کے دوران، مارے جانے کے صرف چند دن بعد مشتہر کئے گئے ہیں۔

اس دوراں، نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے سوپور علاقے میں جمعرات کو حفاظتی دستوں نے حزب المجاہدین کے دو مقامی جنگجوؤں کو ایک جھڑپ میں ہلاک کیا۔ جھڑپ کے بعد سوپور میں لوگوں نے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی سڑکوں پر آکر بھارت مخالف مظاہرے کئے اور پھر ان کے اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں جو آخری اطلاع آنے تک جاری تھیں۔ جبکہ مارے گئے عسکریت پسندوں کی تدفین میں، دیکھنے والے کہتے ہیں، ہزاروں سوگوار شریک ہوئے۔