بھارتی عہدیداروں نے کہا ہے کہ فوج اور دیگر سرکاری دستوں نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔
اہلکاروں کے مطابق، شورش زدہ ریاست کے مختلف علاقوں اور حد بندی لائین کے قریب پیش آنے والی جھڑپوں میں کالعدم لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے دو اعلیٰ کمانڈروں سمیت ایک درجن سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
جھڑپوں کے دوراں کم سے کم ایک بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوا جبکہ تین حفاظتی اہلکار زخمی ہوگئے۔
عہدیداروں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’مارے گئے دونوں عسکری کمانڈر پاکستانی شہری تھے۔ ان میں سے ایک کو جس کی شناخت ابو معاذ کے طور پر کی گئی گزشتہ رات سرینگر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نوپورہ بومئی علاقے میں 20 گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران ہلاک کیا گیا‘‘۔
اس جھڑپ میں ابو معاذ کا ایک قریبی ساتھی عبد المجید میر عرف سمیر بھی جو مقامی کشمیری تھا ہلاک ہوا۔
سرینگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ عسکری کمانڈر ابو معاذ وادی کشمیر کے شمال اور شمال مغربی اضلاع میں پچھلے تین سال سے سرگرم تھا اور سرکاری دستوں اور شہریوں پر کئے گئے کئی حملوں کے سلسلے میں درج کئے گئے مقدمات میں مطلوب تھا۔
بدھ کو مارے گئے مقامی عسکریت پسند سمیر کی تدفین میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا۔ تدفین اُس کے آبائی گاؤں تُجر میں کی گئی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس موقعے پر لوگوں نے بھارت سے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگائے۔ سمیر کے ساتھی کی میت نامعلوم مقام پر دفنائی گئی۔
سوپور شہر اور اس کے مضافات میں مارے گئے عسکریت پسندوں کے سوگ میں اپنے آپ عام ہڑتال کی گئی۔
اس سے پہلے ریاست کے بانڈی پور ضلعے میں سرکاری دستوں نے پانچ مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی تھے۔ لیکن وادی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں نے سامنے آکر پولیس کو بتایا ہے کہ مارے گئے عسکریت پسند غیر ملکی نہیں بلکہ ان کے عزیز ہیں۔
اس دوراں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ حال میں ریاست کے جنوبی ضلع میں تین اسپیشل پولیس افسران کے اغوا اور قتل کے بعد کئی پولیس اہلکار مستعفی ہوگئے ہیں۔ تاہم، ریاست کے ایک اعلیٰ عہدیدار چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم نے اسے نہ ہونے کے برابر قرار دیدیا اور کہا کہ ریاست میں اسپیشل پولیس افسران کی کُل تعداد 30000 ہے اور اگر ان میں سے چند ایک مستعفی ہوگئے ہیں اور وہ بھی صرف جنوبی کشمیر میں تو یہ ناقابلِ ذکر واقعہ ہے۔
کئی پولیس اہلکاروں نے ایک عسکری تنظیم کی دھمکی آمیز ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان ویڈیو پیغامات کے ذریعے کیا جنہیں سوشل میڈیا پر ڈالا گیا۔
بھارت کی وزارت داخلہ نے اس بارے میں ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کو "غلط اور اُکسانے والی" قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرف کی رپورٹیں شرارتی عناصر کی طرف سے کئے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈا پر مبنی ہیں۔
حکام نے سوشل میڈیا کے ذریعے پولیس اہلکاروں کی طرف سے مستعفی ہونے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز بند کردی ہیں، جس کے نتیجے میں خاص طور پر تازہ میوے کا کاروبار کرنے والے افراد اور دوسرے تاجروں اور طالبعلموں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے حکام سے ان سروسز کو فوری طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔