افضل گورو کی برسی پر بھارتی کشمیر میں ہڑتال

(فائل)

بھارتی پارلیمان پر 17 برس قبل ہونے والے حملے میں مجرم قرار دیے گئے کشمیری باغی محمد افضل گورو کی چھٹی برسی پر ہفتے کو وادی کشمیر میں ایک عام احتجاجی ہڑتال کی گئی، جس سے علاقے میں کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔

ہڑتال کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی اور مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں اور کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس کی تائید کی تھی۔ پولیس نے اتحاد میں شامل لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو اُن کے گھروں میں نظر بند کر دیا ہے یا انہیں امتناعی حراست میں لیا گیا ہے۔

گورو کو دلی کی تہاڑ جیل میں چھ سال پہلے آج ہی کے دِن یعنی 9 فروری 2013ء کو پھانسی دی گئی تھی، جس کے بعد اُن کے جسدِ خاکی کو جیل کے احاطے ہی میں دفنایا گیا تھا۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے میں نہ صرف جلد بازی سے کام لیا گیا بلکہ اس سلسلے میں قانونی لوازمات کو بھی بالائے طاق رکھا گیا۔ ان کے بقول، اس کے پیچھے نئی دہلی میں اُس وقت کی حکومت کے سیاسی مقاصد کار فرما تھے۔

13 دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمان پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں آٹھ حفاظتی اہلکار اور ایک مالی ہلاک اور 13 حفاظتی اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے تھے۔ جوابی کارروائی میں پانچ مشتبہ دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے حملے کے لئے عسکری تنظیم جیش محمد کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ افضل گورو پر حملہ آورں کی اعانت کر کے بھارتی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور حملے کے لئے کی گئی سازش میں شامل ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

ہفتے کو 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' اور وکلاء کی تنظیم نے افضل گورو کی باقیات کو لوٹا کر انہیں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں عزت و احترام کے ساتھ دفنانے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ اتحاد میں شامل مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے۔ افضل گورو کی اہلیہ تبسم گورو نے بھی اپنے شوہر کی باقیات کو لوٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے "ہم پچھلے چھ سال سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں''۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ''اس کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ ہم تب تک یہ مطالبہ کرتے رہیں گے جب تک افضل صاحب کی باقیات کو ہمیں لوٹایا نہیں جاتا۔ ہم انہیں اسلامی طریقے سے اور مقامی روایات کے مطابق آبائی وطن میں سپردِ خاک کرنا چاہتے ہیں"۔

اس سے پہلے میر واعظ عمر نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ "کشمیر آج شہید افضل گورو کو یاد کر رہا ہے اور انہیں اُن کی چھٹی برسی پر زبردست خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے۔ انہیں انصاف اور انسانیت کے تمام قاعدوں کے خلاف 'ریاست کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے' تہاڑ جیل میں رازداری کے ساتھ پھانسی دی گئی اور وہیں دفنایا گیا"۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کو انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے سنائی گئی موت کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا، "جرم کی سنجیدگی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے (پارلیمنٹ پر حملے) نے جس میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کو صرف مجرم کو سزائے موت دینے سے ہی مطمئن کیا جاسکتا ہے"۔

لیکن، حقوقِ بشر کی عالمی تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افضل گورو پر چلائے گئے مقدمے کے دوران اپنائے گئے طریقہء کار کو ''غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں موزوں قانونی نمائندگی فراہم نہیں کی گئی۔ نیز، انہیں رازداری کے ساتھ تختہء دار پر لٹکایا گیا''۔

ہفتے کو پولیس اور نیم فوجی دستوں نے دارالحکومت سرینگر اور شمال مغربی شہر سوپور میں جو گورو کا آبائی علاقہ ہے کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں۔ افضل گورو کے بھائی محمد یاسین گورو نے وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ علاقے میں پولیس اور دوسرے سرکاری دستے پابندیوں کو کچھ اس سختی کے ساتھ عائد کر رہے ہیں کہ عام لوگ تو کیا اُن کے رشتے دار بھی ان کے ہاں آ نہیں سکے ہیں۔

عہدیداروں نے کہا ہے کہ حفاظتی پابندیاں اس لئے عائد کی گئیں، تاکہ، ان کے بقول، ''شر پسند عناصر کو امن و امان میں رخنہ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے''۔