بھارتی کشمیر میں پنچایتوں کے ضمنی انتخابات مؤخر

سرینگر (فائل)

بھارت کے الیکشن کمیشن نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس سال 5 مارچ سے کرائے جانے والے پنچایتی ضمنی انتخابات کو مؤخر کر دیا ہے۔ انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن حکام نے بتایا کہ یہ اقدام سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔

چند روز پہلے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر شیلیندر کمار نے اعلان کیا تھا کہ پنچایتوں کی ایسی 11 ہزار 6 سو 39 نشستوں کے لیے 5 مارچ سے انتخابات کرائے جائیں گے، جن پر 2018 میں ہونے والے عام پنچایتی انتخابات کے دوران امیدواروں کا چناؤ نہیں ہو سکا تھا۔

لیکن، محکمہ داخلہ نے انتخابی کمیشن کو مطلع کیا تھا کہ مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں امن و امان کو خطرات کا سامنا ہے۔ محکمہ داخلہ نے ان رپورٹوں کی بنیاد پر انتخابی کمیشن سے کہا کہ ضمنی انتخابات موخر کیے جائیں۔

حفاظتی مسائل سے نمٹنے کے لیے تین ہفتے کی مہلت

شیلیندر کمار نے کہا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیز کو اُن مسائل سے نمٹنے کے لیے دو سے تین ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جن کی بنا پر انہوں نے انتخابات کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا اور یہ کہ اس کے بعد ہی ان انتخابات کے لیے نیا شیڈیول جاری کیا جائے گا۔

تجزیہ نگار اور سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون اور بین الاقوامی مطالعات کے سابق سربراہ پروفیسر شیخ شوکت حسین نے پنچایتی ضمنی انتخابات کو موخر کرنے کے فیصلے کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے زمینی حقائق کا اعتراف قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "بنیادی طور پر ہندوستانی حکومت 5 اگست (2019) کے بعد سے یہ مسلسل کہتی چلے آئی ہے کہ جموں و کشمیر میں آئینِ ہند کی دفعہ 370 کو ہٹائے جانے کے بعد حالات بہتر ہوئے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتی آئی ہے کہ لوگ دفعہ 370 کے خاتمے پر خوش ہیں۔ اب اس نے خود مان لیا ہے کہ یہاں امن و امان کو خطرات درپیش ہیں۔ اس طرح، اس کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے۔"

بقول ان کے، "کشمیر میں حالات نارمل نہیں ہیں۔ اس لیے حکومت پنچایتی ضمنی انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے‘‘۔

'پوری دنیا کی نظریں کشمیر پر لگی ہوئی ہیں'

کئی سیاسی جماعتوں نے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی سبھی بڑی علاقائی جماعتوں نے موجودہ صورتِ حال میں اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کیا تھا۔ ان جماعتوں کا کہنا تھا کہ ایک ایسے موقعے پر جب نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سمیت جموں و کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ اور سیکڑوں دوسرے سیاسی کارکن جیلوں میں بند ہیں پنچایتی ضمنی انتخابات کرانا درست نہ ہوگا۔

نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے کہا کہ "پوری دنیا کی نظریں کشمیر پر لگی ہوئی ہیں۔ موجودہ حالات میں جب سیاسی قیادت کو جس میں تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے، پنچایتی ضمنی انتخابات کرانا بھارت کے لیے عالمی سطح پر سبکی کا باعث بن جاتا۔ نیز، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے بغیر سبھی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔"

سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے منگل کو کہا تھا "جس طرح بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے بغیر انتخابات کرانا ممکن نہیں اسی طرح جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل کانفرنس کے بغیر انتخابات عمل میں نہیں لائے جا سکتے۔"

مزید تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک

اس دوراں عہدیدداروں نے بتایا کہ بُدھ کو حفاظتی دستوں نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ کے ترال علاقے میں تلاشی آپریشن کے دوران تین مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں حزبِ المجاہدین تنظیم کا ایک اعلیٰ کمانڈر جہانگیر رفیق وانی بھی شامل تھا۔

تاہم، مقامی لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے دو کو 12 جنوری کو ایک فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور بدھ کو انہیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ عہدیداروں نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی۔

بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے نامہ نگاروں کا بتایا کہ ہلاک ہونے والے تینوں عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا اور ان کا کمانڈر جہانگیر، ان کے بقول، پولیس کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں شامل تھا۔

اس افواہ کے بعد کہ ہلاک کیے گیے عسکریت پسندوں میں سے ایک کا تعلق بارہمولہ سے ہے، سرینگر سے 55 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اس شہر میں دکانیں اور دوسرے کاروباری ادارے بند کیے گیے اور سڑکوں پر سے پبلک اور نجی ٹرانسپورٹ گاڑیاں ہٹالی گئیں۔ بارہمولہ کے بعض مقامات پر مظاہرین نے پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں پر سنگباری کی، لیکن شہر میں حالات فوری طور پر معمول پر آگئے۔

کشمیری پنڈتوں کے لیے دس خصوصی قصبے بنانے کا منصوبہ

ادھر بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ کشمیر سے 1990 میں نقلِ مکانی کرنے والے کشمیری پنڈتوں (برہمن ہندوؤں) کو وادی میں دوبارہ بسانے کے لیے اس کے مختلف اضلاع میں دس خصوصی قصبے تعمیر کیے جائیں گے۔ نئی دہلی میں کشمیری پنڈتوں کے نمائندوں کے ایک وفد کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران امیت شاہ نے اس سے یہ بھی کہا کہ وادی میں اپنی جائیدادوں کی دوبارہ حصولیابی کے لیے حکومت پنڈتوں کو بھرپور مدد فراہم کرے گی، وادی کے تمام چھوٹے بڑے مندروں کی مرمت و تجدید کا کام بہت جلد شروع کیا جائے گا اور کشمیری پنڈتوں کی باعزت گھر واپسسی کے بعد انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

کشمیری پنڈتوں کے ایک ترجمان اتپل کول نے بتایا کہ وفد نے وزیرِ داخلہ کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کو جن کے تحت جموں و کشمیر کو بھارت میں خصوصی پوزیشن اور اس کے شہریوں کو خاص مراعات حاصل تھیں ختم کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے پر انتباہ

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے بُدھ کو سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وی پی این کا استعمال کرنے والے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے سری نگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پیلٹ فارمز پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے اور جو لوگ امن و امان میں رخنہ ڈالنے اور افواہیں پھیلانے کی غرض سے ان سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وی پی اینز کا "غلط استعمال" کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔

پولیس عہدیداروں کے مطابق، ایسے 100 سے زائد افراد کی پہلے ہی نشاندہی کی جا چکی ہے اور ان کے خلاف پولیس کی سائبر کرائم برانچ نے ایف آئی آر درج کرائی ہے۔