بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی گورنر انتظامیہ نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے کہ شورش زدہ ریاست میں اگلے ماہ سے ہونے والے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کو دو بڑی اور اہم بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان کا بائیکاٹ کرنے کے اعلان کے پیشِ نظر ملتوی کیا جا رہا ہے۔
ریاست کے ایک اعلیٰ عہدیدار چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم نے بُدھ کو سرینگر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ ان انتخابات کو اب اگلے سال جنوری تک موخر کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ان انتخابات کے انعقاد کے لئے مقرر کردہ تاریخوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ہم نے انہیں شیڈول کے مطابق منعقد کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ آج سے تین ہفتے بعد بلدیاتی انتخابات ہونگے اور پھر نومبر کے پہلےہفتے میں پنچایتوں کے لئے انتخابات کرائے جائیں گے"۔
چیف سیکریٹری نے یہ بیان ان اطلاعات کے پس منظر میں دیا ہے کی چونکہ ریاست کی سب سے پُرانی بھارت نواز سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس اور اس کی حریف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے اس لئے انہیں ملتوی کیا جارہا ہے۔
نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں نے کہا ہے کہ ’’اول تو شورش زدہ ریاست میں پائی جانے والی زمینی صورتِ حال دیہی اور شہری بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے سازگار نہیں ہے اور پھر آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کے بارے میں نئی دہلی اور سرینگر میں حکومتوں کے مبہم اور غیر واضح موقف نے کشمیری عوام میں ہیجان پیدا کر دیا ہے‘‘۔
نیشنل کانفرنس نے نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت اور ریاست میں گورنر انتظامیہ دونوں سے دفعہ 35اے کے بارے میں اپنا اپنا موقف واضح کرنے کے لئے کہا ہے ۔ پارٹی کے صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبد اللہ نے کہا کہ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا ان کی جماعت کسی بھی انتخابی عمل میں جس میں ریاستی اسمبلی اور بھارتی پارلیمان کے انتخابات بھی شامل ہیں حصہ نہیں لے گی۔
انہوں نے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ہم خیال سیاسی جماعتوں اور قائدین کے اس مطالبے پر کہ آئینِ ہند کی اُن دفعات کو منسوخ کیا جانا چاہیئے کہا جن کے تحت ریاست کو ہند یونین میں خصوصی پوزیشن حاصل ہےکہا ہے کہ ’’اگر دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 غلط ہیں تو ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق بھی غلط ہے"۔
ان دونوں دفعات کو بھارتی سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے ایک سہ رکنی بینچ نے 31 اگست کو دفعہ 35 اے کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پر سماعت اگلے سال جنوری کے دوسرے ہفتے تک مؤخر کردی تھی اور یہ کہا تھا کہ ایسا نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عنقریب ہونے والے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں سے ان کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔اس کا استدلال ہے کہ انتظامیہ کے امور چلانے میں مجموعی بنیادی سطح پر لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ان انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ تاہم، بی جے پی نے اس کے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر نئی دہلی کو دفعہ 35 اے کے حوالے سے بلیک میل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس دوران بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بھی کہا ہے کہ ریاست میں یہ انتخابات کرانے کے لئے حالات موزوں نہیں ہیں۔ کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر غلام احمد میر نے سرینگر میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کو انفرادی سطح پر طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جن میں ان کی جانوں کو لاحق خطرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے استفسار کیا۔ "اس کی ذمہ داری لینے کے لئے کوئی تیار نظر نہیں آرہا ہے اور نہ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور نہ الیکشن حکام کی طرف سے ایک بھی لفظ سامنے نہیں آیا ہے"۔
واضح رہے کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں نے لوگوں سے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا ہے۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ بھارتی آئین اور بھارتی انتظام کے تحت کرائے جانے والے انتخابات چاہے وہ بلدیاتی اداروں کے لئے ہوں یا ریاستی اسمبلی اور بھارتی پارلیمان کے لئے کشمیریوں کے مطالبہء حقِ خود ارادیت کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔
ریاست میں سرگرم عسکری تنظیموں نے اس مؤقف کی تائید کی ہے جس کے پیشِ نظر بھارت نواز سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کو قوی امکان موجود ہے۔