جنوبی دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف خواتین کے دھرنے کو تین ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ اس دھرنے کو ختم کرانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
اس درمیان یخ کر دینے والی سردی بھی پڑی اور بارشیں بھی ہوئیں۔ ایک شخص کے ذریعے فائرنگ کر کے خوف پیدا کرنے کوشش بھی کی گئی۔ دھرنے کو بدنام کرنے کی بھی متعدد کوششیں کی گئیں اور دہلی اسمبلی انتخابات میں اسے دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمی سے تعبیر کیا گیا مگر دھرنا جاری رہا۔
وزیرِ داخلہ امت شاہ کے ایک بیان سے حکومت کی مبینہ نرمی کا بھی پتا چلتا ہے۔ مزید براں کرونا وائرس کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ اس کے باوجود وہاں کی خواتین سی اے اے، مجوزہ این آر سی اور این پی آر کی واپسی تک اس دھرنے کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
تین ماہ مکمل ہونے پر انھوں نے دھرنا گاہ پر ایک نیوز کانفرنس کی۔ انھوں نے کہا کہ جب تک ان کا مطالبہ منظور نہیں ہو جاتا ان کا دھرنا جاری رہے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ دہلی فسادات کے دوران خواتین اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تاکہ خواتین کے مظاہرے بند کرائے جا سکیں۔
نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریتو کوشک، میمونہ نرگس اور دیگر خواتین نے الزام لگایا کہ دہلی کا فساد منصوبہ تھا لیکن اسے فرقہ وارنہ رنگ دے دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ مرنے والے خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو وہ ہندوستانی تھے ہم ان کے تئیں ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کے بقول ”فسادیوں کو خواہ وہ پولیس والے ہوں یا کوئی اور، وہ ہندوستانی نہیں تھے بلکہ وہ آر ایس ایس کے پالے ہوئے غنڈے تھے“۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ”گھروں کو لکڑی کی طرح جلایا گیا۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی“۔
انہوں نے کہا کہ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ خواتین آپ بیتی سنانے کی حالت میں نہیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں اور حاملہ خواتین کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔
خواتین نے بتایا کہ فسادیوں کو باہر سے بلایا گیا تھا۔ خود وزیر داخلہ نے تین سو لوگوں کے باہر سے آنے کی بات تسلیم کی ہے تو کیا ان کو پکڑا گیا۔ آخر وہ کون لوگ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں اس لیے بیٹھے ہیں تاکہ اس متنازعہ قانون کو واپس لیا جائے۔ ہم کسی کے بہکاوے میں یہا ں نہیں بیٹھے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو بربریت ہوئی تھی اس کے خلاف یہاں آئے تھے۔
خاتون مظاہرین نے کہا کہ ہم شاہین باغ کے توسط سے پورے ملک کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر سماجی قانون کو مسترد کر دیں۔ سیکولر ازم کے خلاف اس قانون کے خلاف عوام سڑکوں پر آئیں اور اس کے خلاف مظاہرہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کرونا وائرس کا علم ہے۔ ہم لوگ احتیاط کر رہے ہیں۔ ہمیں ڈرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہم لوگ کرونا کے خوف سے اپنا دھرنا ختم کرنے والے نہیں ہیں۔
شاہین باغ دھرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی پہنچا۔ عدالت عظمیٰ نے مظاہرین سے بات کرنے کے لیے تین مذاکرات کار مقرر کیے۔ انھوں نے اپنی رپورٹ عدالت کو سونپ دی ہے۔ اب 23 مارچ کو اس معاملے پر سماعت ہو گی۔
پورے ملک میں دو سو سے زاید مقامات پر خواتین پرامن احتجاج کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آئے دن مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ البتہ کرونا وائرس کی وبا کے آنے کے بعد فی الحال مظاہروں کا سلسلہ رک سا گیا ہے۔
دہلی میں شاہین باغ کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ،حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک،سیلم پور فروٹ مارکیٹ، جامع مسجد، ترکمان گیٹ، بلی ماران، حوض رانی اور بیری والا باغ وغیرہ میں بھی خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ حضرت نظام میں میں خواتین کے احتجاج کو 46 دن ہو گئے۔
تغلق آباد میں خواتین نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے ناکام کر دیا۔ پولیس نے کئی مقامات پر خاتون مظاہرین کے خلاف کارروائی کی ہے اور چند ایک کو گرفتار بھی کیا ہے۔
اترپردیش مظاہرہ کرنے والوں کے لیے سب سے مخدوش ریاست بن کر ابھری ہے۔ جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹا دیتی ہے۔ وہاں 19 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22 لوگوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ تاہم خواتین لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر 15 جنوری سے مظاہرہ کر رہی ہیں۔
الہ آباد کے منصور علی پارک میں، کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل، دیوبند، سہارنپور، مبارک پور اعظم گڑھ، اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔
بہار میں 30 سے زائد، مہاراشٹر میں تقریباً 20، مغربی بنگال میں تقریباً 15 اور اسی طرح دیگر ریاستوں میں بھی سی اے اے کے خلاف خواتین کے پرامن مظاہرے جاری ہیں۔