امریکہ اور بھارت نے منگل کے روز دہشت گردی سے نمٹنے کے ضمن میں تعاون بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
بھارت کی وزیر برائے بیرونی امور، سوشما سوراج نے نئی دہلی میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ دونوں جمہوریتیں انٹیلی جنس پر شراکت داری کو تیز کرنے اور خاص طور پر’’اس سمجھوتے پر جلد از جلد عمل درآمد کریں گی، جس کے تحت بدنام یا مشتبہ دہشت گردوں کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کیا جائے گا‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق، حکومتوں نے ’’سائبر جرائم کو کم کرنے کے لیے مشترکہ سائبر ضابطوں‘‘ سے اتفاق کیا۔
مجموعی طور پر، بھارت اور امریکہ کے عہدے داروں نے خاص طور پر وسیع تر حکمت عملی کے حامل اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیا، جن کے بارے میں کیری نے کہا کہ ’’اِن کے آغاز کا اِس سے زیادہ اہم موڑ اور کوئی نہیں ہو سکتا‘‘۔
وسیع جہتی دوسرا امریکہ بھارت اسٹریٹجک اور کاروباری مکالمہ پہلی بار بھارت میں منعقد ہوا، جو اہم اجلاسوں اور سمجھوتوں کے سلسلے کی تازہ کڑی ہے، جن کی بدولت روایتی طور پر غیر وابستہ بھارت اب امریکہ کے ساتھ اہم قریبی تعلقات کی جانب آگے بڑھا ہے، ایسے میں جب چین کے زیادہ جارحانہ انداز کے بارے میں دونوں ملکوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
ریشمی قاضی ’انسٹی ٹیوٹ فور ڈفنس اسٹڈیز اینڈ انالسز‘ میں معاون فیلو کے طور پر فرائض انجام دیتے ہیں، جو بھارت کی وزارتِ دفاع کی رقوم پر چلنے والا ایک خودمختار تحقیقی ادارہ ہے۔ بقول اُن کے، ’’باہمی تعلقات مرحلہ وار نہج پر داخل ہو رہے ہیں جہاں بھارت منتظر ہے کہ اُسے امریکہ کا قریبی ساتھی اور پارٹنر کے طور پر دیکھا جائے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’عیاں وجوہات کی بنیاد پر امریکہ اور بھارت کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے حکمت عملی کے حامل تعلقات سے چین کے خدشات میں اضافہ ہو سکتا ہے‘‘۔
مکالمہ سوراج کی وزارت میں منعقد ہوا۔ بقول اُن کے، ’’باہمی تعلقات کی شدت غیر معمولی نوعیت کی ہے‘‘۔
زیرِ گفتگو معاملات کا تعلق امریکہ کے ’ایچ 2بی‘ ویزا سے ہے، جو بھارتی توانائی کے گرڈ کو توانا رکھنے کا دارومدار امریکی اعانت پر ہے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جس نے حالیہ برسوں کے دوران کئی تجارتی رکاوٹیں ہٹائی ہیں؛ اور بھارت نے امریکہ کے ساتھ سالانہ باہمی تجارت پانچ گنا، یعنی 500 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف رکھا ہے۔
اس ہدف کے حصول کے لیے، امریکی تجارت کی وزیر پینی پارزکر کے بقول، اِس وسیع جہتی ڈائلاگ میں شامل شرکا کو ’’بڑی سوچ، جراٴت مندانہ فیصلے‘‘ کرنا ہوں گے۔ واشنگٹن کے وفد میں شامل وہ ایک اور وزارتی سطح کی عہدے دار ہیں۔
بقول اُن کے، ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم بھارتی اور امریکی کمپنیوں کے لیے سہل بنائیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرمایہ کاری کر سکیں، اور ایک دوسرے سے مل کر سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرسکیں‘‘۔
ادھر امریکی اور بھارتی افواج نہایت ہی کلیدی سالانہ مشترکہ مشقیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا ایک نسل پہلے تک تصور محال تھا جب امریکہ بھارت کے سخت مخالف پاکستان کی فوج کا اہم حامی تھا۔
اس وقت بہت سارے لوگ خیال کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے امور کو اب امریکہ مساوی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس نے حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کو دونوں فوجی اور معاشی امداد میں خاصی کٹوتی کی ہے۔
امریکہ اور بھارت دونوں میں اس بات پر مایوسی ہے کہ پیش رفت اور زیادہ تعاون کے باوجود، پاکستان نے ابھی اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صفایا کرنے کی جانب مکمل دھیان نہیں دیا۔
کیری نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’حکومت پاکستان نے مجھے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ اس کوشش کے عزم میں پختہ ہیں‘‘۔
اُن کی بھارتی ہم منصب اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ ایک صحافی کے سوال پر سوراج نے کہا کہ ’’دہشت گردی اور مکالمہ ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے‘‘۔ اُن سے طویل مدت سے معطل بھارت پاکستانی بات چیت کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔