بھارت کی جوہری صلاحیت میں اضافہ خطے کے استحکام کے لیے مضر ہے: ماہرین

فائل فوٹو

سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حریف پر جوابی جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت کسی بھی طور نہ دونوں ملکوں اور نہ ہی خطے کی سلامتی کے حق میں ہے۔

ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بات چیت کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے خطے کی سلامتی کے لیے خطرات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور ایسے میں بھارت کی طرف سے جوہری و روایتی ہتھیاروں میں اضافہ ان خدشات کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

بھارت کی طرف سے حال ہی میں جوہری صلاحیت کے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا جو حریف پر فوری حملے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خطے میں اسٹریٹیجک توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

رواں ہفتے اسلام آباد میں جنوبی ایشیا میں جوہری استحکام کے حوالے سے بڑھتے ہوئے چیلنجز پر ہونے والے ایک مذاکرے میں پاکستان کے اسٹریٹیجک پلانز ڈویژن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ بھارت کے اس حالیہ تجربے سے پاکستان پر اس کی جوہری صلاحیت کی تیاری میں دباؤ بڑھے گا۔

مذاکرے میں شریک ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطے میں پہلے ہی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو چکی ہے جس سے یہاں اسٹریٹیجک عدم توازن کی عکاسی ہوتی ہے۔

حالیہ برسوں میں بھارت نے اپنے روایتی ہتھیاروں کے ذخیرے میں تیزی سے اضافہ کیا اور بعض اطلاعات کے مطابق سول جوہری معاہدے کو استعمال میں لاتے ہوئے اس نے اپنے جوہری مواد کے ذخیرے میں قابل ذکر اضافہ کیا جس سے وہ بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔

گزشتہ سال ہی پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے ملک نے چھوٹے جوہری ہتھیار تیار کر لیے ہیں۔

تاہم پاکستانی عہدیداروں کے بقول پاکستان کے جوہری پروگرام میں ہونے والی پیش رفت اعتدال پر مبنی ہے اور یہ کم سے کم دفاعی ضرورت کو مدنظر رکھ کر کی جا رہی ہے۔

سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حریف پر جوابی جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت کسی بھی طور نہ دونوں ملکوں اور نہ ہی خطے کی سلامتی کے حق میں ہے۔

دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات کی نوعیت زیادہ تر کشیدہ ہی رہی ہے اور کئی برسوں کے تعطل کے بعد گزشتہ سال کے اواخر میں دو طرفہ جامع مذاکرات کی بحالی کے اعلان کے باوجود یہ سلسلہ تاحال شروع نہیں ہو سکا۔

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ خطے میں سلامتی کے لیے دونوں جوہری قوتوں کے مابین بات چیت کا بحال ہونا اور اس کا جاری رہنا از حد ضروری ہے۔

امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تصفیہ طلب معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی خطے اور دنیا کے امن کے لیے سود مند نہیں۔