بھارت: متنازع تین طلاق بِل پارلیمنٹ میں دوبارہ پیش

بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت کا عکس پانی میں دکھائی دے رہا ہے۔ 20 جولائی 2018

حکومت نے سترہویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس کے پہلے ہی روز متنازعہ طلاق ثلاثہ بل نئے سرے سے پیش کیا جس پر حزب اختلاف نے زبردست ہنگامہ کیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سے مسلم خواتین کو انصاف ملے گا، جب کہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت اس کے ذریعے مسلم مردوں کو ہدف بنانا چاہتی ہے۔

وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیک وقت تین طلاق کو تعزیرات ہند کے تحت جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق، یہ سوال نہ سیاست کا ہے، نہ عبادت کا اور نہ ہی مذہب کا، بلکہ یہ سوال خواتین کے وقار و انصاف کا ہے۔

اس پر حزب اختلاف کی جانب سے ہنگامہ آرائی ہوئی اور مطالبہ کیا گیا کہ اسے وسیع تر تبادلہ خیال کے بعد پیش کیا جائے۔

لیکن، اسپیکر اوم برلا نے اسے صوتی ووٹوں سے پیش کرنے کی ہدایت دی۔ ایک بار پھر ہنگامہ ہوا اور ووٹ کے ذریعے اسے پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بل پیش کرنے کی حمایت میں 186 اور مخالفت میں 78 ووٹ پڑے۔

بل پیش کرتے وقت روی شنکر پرساد نے کہا کہ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا پڑے گا کہ آزادی کے 70 سال بعد بھی جب کہ ملک میں آئین و قانون نافذ ہے، خواتین کو ’طلاق طلاق طلاق‘ کہہ کر گھر سے باہر کر دیا جائے۔ اس کی کوئی فریاد نہ سنی جائے۔ اس لیے، حکومت ایسی خواتین کو انصاف دلانا چاہتی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے بل کی شدید مخالفت کی اور اسے امتیازی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے، یعنی تین بار طلاق دینے سے شادی ختم نہیں ہوتی تو پھر یہ قانون کیوں بنایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ قانون دستور کی دفعات 14 اور 15 کی خلاف ورزی کرتا ہے اور دیگر ضابطے بھی پامال ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق، اگر کوئی ہندو اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور مقدمہ چلے تو اس کو ایک سال کی جیل اور مسلمان کو تین سال کی جیل۔ حکومت مسلم خواتین کی ہمدرد نہیں ہے۔ جب شوہر جیل چلا جائے گا تو اس کا نان نفقہ کون برداشت کرے گا۔

اویسی نے کہا کہ حکومت کو مسلم عورتوں کی تو بڑی فکر ہے مگر ہندو عورتوں کی کیوں نہیں ہے۔ وہ کیرالہ کے سبری مالا مندر کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کیوں نہیں مانتی جس میں تمام عمر کی خواتین کو مندر میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔

کیرالہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا کہ حکومت کو طلاق ثلاثہ قانون کی بجائے یکساں قانون لانا چاہیے جس میں صرف مسلم مردوں کو ہی ہدف نہ بنایا گیا ہو۔

ان کے بقول، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ انھوں نے اسے امتیازی قرار دیتے ہوئے بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔

حکومت نے 2017 میں بھی مذکورہ بل پیش کیا تھا جو لوک سبھا میں تو منظور ہو گیا تھا مگر راجیہ سبھا میں منظور نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہو گیا تھا، جس کے بعد حکومت نے دو بار آرڈیننس لا کر اسے قانون کا درجہ دیا تھا۔