بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے ہفتے کو بابری مسجد کے مقدمے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کے سیکولر تشخص اور مذہبی آزادیوں کے پس منظر میں اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ اس فیصلے کے تناظر میں کسی طرح کے انتشار کا امکان نہیں لیکن کروڑوں مسلمان خود کو غیر محفوظ خیال کرنے لگے ہیں۔
دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت نے میرٹ پر فیصلہ دیا ہے اور مسجد کے لیے پانچ ایکڑ اراضی دینے کی ہدایت کے ساتھ مسلمان کمیونٹی کی داد رسی بھی کی ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ممبئی سے تعلق رکھنے والی خاتون وکیل فرحانہ شاہ نے، جنہیں اجمل قصاب کی وکالت پر شہرت حاصل ہوئی تھی، کہا کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کیس میں آرکیالوجیکل بنیادوں پر، مطلب علم آثار قدیمہ کی بنیادوں پر فیصلہ سنایا ہے۔
’’ وہی ہوا جو ہم نے پہلے کہا تھا کہ عدالت آثارِ قدیمہ سے ملنے والی شہادتوں پر یقین کرے گی۔ وہ مسلمانوں کے جذبات اور دیگر چیزوں کو نہیں دیکھیں گے۔‘‘
وکیل فرحانہ شاہ عدالت کی جانب سے بابری مسجد گرانے والوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنے پر حیرت زدہ ہیں۔
’’ جن لوگوں نے، جن حملہ آوروں نے مسجد گرانے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، ان کو قرار واقعی سزا دینے سے متعلق عدالت نے کچھ نہیں کیا۔ کوئی شک نہیں کہ عدالت نے ایک مؤثر فیصلہ دیا ہے جس سے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ سقم موجود ہیں۔‘‘
اُن کے بقول، یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ملک کے اندر جو طرز حکمرانی کا مجموعی مزاج ہے، اس کا رنگ ہر جگہ جھلکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک میں جو حالات ہیں، ان کے پیش نظر ایسا امکان نہیں کہ ہندو مسلم فسادات کی صورت جنم لے۔
پروفیسر وقار احمد کا تعلق بھی بھارت سے ہے۔ وہ نارتھ ٹیکساس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ بھارت میں نسلی فسادات پر تحقیق کر چکے ہیں اور اس شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس اعتبار سے اہم تھا کہ دیکھنا یہی تھا کہ آیا عدالت عظمی سیکولرازم کو تھامے رکھ پائے گی یا نہیں؟ پر وہ نہیں کر پائے۔
اُن کے بقول، "عدالت نے ان لوگوں کے ہاتھ میں طاقت دے دی ہے کہ وہ رام مندر بنائیں جنہوں نے مسجد کو گرا دیا تھا۔‘‘
پروفیسر وقار کہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کے بعد مسلمان کمیونٹی اب تک پر امن ہے اور اسے پرامن ہی رہنا چاہیے کہ بابری مسجد کا معاملہ 1992 میں کئی جانیں لے چکا ہے اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ جہاں جہاں ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں، وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اس اعتبار سے وہ کہتے ہیں کہ اس وقت صرف ریاست کا مزاج ہی نہیں بدل چکا بلکہ معاشرے کا مزاج بھی بدل گیا ہے۔ نسلی فسادات کبھی مسلمانوں کے حق میں نہیں گئے۔ جہاں جہاں فسادات ہوئے، وہاں بی جے پی اور آر ایس ایس نے زیادہ کنٹرول حاصل کیا۔
’’ یونٹی، ڈائورسٹی (اتحاد، تنوع) کے سلوگن دم توڑ چکے ہیں‘‘۔ ان کے بقول سوشل میڈیا بھی خاص ہاتھوں میں جا چکا ہے۔
پروفیسر وقار نہیں سمجھتے کہ عدالت کا فیصلہ آرکیالوجیکل شہادتوں پر تھا۔ ان کے بقول غیر جانبدار ماہرین آثار قدیمہ نے جو اس پر تحقیق کی اور پیپر لکھا اس میں واضح کر دیا گیا تھا کہ مسجد کی جگہ کبھی بھی کوئی مندر نہیں تھا۔
اُن کے مطابق جج صاحبان کے بینچ میں شامل ایک جج صاحب کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں کہ وہ خود یہ یقین رکھتے ہیں کہ بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندر ہی تھا۔
پروفیسر وقار کا کہنا ہے کہ دنیا میں بھارت کے سیکولر تشخص کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اٹھا کر پڑھیں تو لگتا ہے کہ پوری دنیا کو ایسی چیزوں پر حیرت ہو رہی ہے۔
’’ہندوستان تھیو کریٹک اسٹیٹ نہیں ہوگا، یعنی مذہبی ریاست نہیں ہوگا، یہ وہ وعدہ ہے جو کئی برسوں سے وفا نہیں ہو رہا۔‘‘
فرحانہ شاہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کو بھی اب اس مسئلے کو بھول کر آگے کی طرف بڑھ جانا چاہیے، اس مسئلے کو بھول جانا بہتر ہے۔ مسجدیں تو اور بھی بہت بن جائیں گی، اللہ بہت بڑا نگہبان ہے۔ اسی دیش میں رہنا ہے، یہیں سب کچھ کرنا ہے۔‘‘
پروفیسر وقار کہتے ہیں کہ اگر عدالت مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیتی تو شاید بھائی چارے کے ناطے بہت سے مسلمان کہتے کہ زمین ہندووں کو دے دو۔
راکیش کنور سنگھ ماہر قانون ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سامنے دونوں فریقوں نے جو دلائل اور شہادتیں رکھیں وہ ثابت نہیں کر سکتی تھیں کہ بابری مسجد رام مندر زمین کا اصل حقدار کون ہیں۔ اس لیے عدالت نے ایک متوازن فیصلہ دیا ہے۔ اگر کسی کو ججمنٹ سے اختلاف ہے تو وہ نظر ثانی کی اپیل داخل کر سکتے ہیں۔
وکیل راکیش کنور سنگھ نے کہا کہ وہ فیصلے کے نظام الاوقات پر تبصرہ نہیں کریں گے کہ یہ فیصلہ عین اسی دن کیوں آیا جب پاکستان نے بھارت کے سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے پاکستان کے اندر ان کے مقدس مقام، دربار بابا گرونانک تک رسائی کے لیے راہداری باضابطہ طور پر کھول دی۔
اُن کے خیال میں اس اعتبار سے فیصلہ سنیچر کے روز دیا گیا ہو کہ اگر انتظامی طور پر کنٹرول کی ضرورت پڑتی تو سیکیورٹی اسٹاف کی زیادہ تعداد میسر ہوتی اور ان کو تعینات کیا جا سکتا۔
راکیش سنگھ اس تصور کو قبول نہیں کرتے کہ عدالت کا فیصلہ کسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول، ’’ میرے خیال میں عدالتیں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ججوں پر کوئی دباؤ نہیں۔ وہ وجوہات اور ثبوتوں پر فیصلہ دیتے ہیں۔‘‘