بھارت نے تاریخی نادر یادگار تاج محل کو بند کر دیا ہے۔ یہ دنیا کی ان عمارتوں میں شامل ہے جہاں دنیا بھر سے آنے والے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ اور اب یہ مقام بھی کرونا وائرس کے خوف کی زد میں آ گیا ہے۔
بھارت کی وزارت ثقافت نے منگل کے روز کہا کہ اب یہ بات ناگزیر ہو گئی ہے کہ لوگ آگرہ شہر میں واقع اس یادگار سے دور ہی رہیں، جس کی شان و شوکت یقینی طور پر کرونا وائرس کے خوف سے متاثر نہیں ہوئی۔
ہر روز تقریباً بیس ہزار بھارتی اور غیر ملکی باشندے تاج محل کی سیر کو آتے ہیں اور اختتام ہفتہ یہی تعداد دو گنا ہو جاتی ہے۔
ایسے ہی سیاحوں میں ہرش سنگھ بھی شامل ہیں جو نئی دہلی سے اپنے خاندان کے ساتھ محبت کی یادگار کہلانے والے تاج محل کا نظارہ کرنے آگرہ آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہفتے کے روز ٹکٹ خریدنے والوں کی لمبی قطار تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیہ ٹرمپ نے بھی گذشتہ ماہ اپنے سرکاری دورہ بھارت کے دوران تاج محل کا دورہ کیا تھا۔
تاج محل بھارت کی مغربی ریاست اتر پردیش کے شہر آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے واقع محبت کی یادگار ہے جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کرایا تھا جو وہاں دفن ہیں۔
بادشاہ کی چہیتی ملکہ ایک بچے کو جنم دیتے ہوئے 1631 میں انتقال کر گئی تھیں۔ تاج محل مغلیہ دور کے بہترین فن تعمیر کا حسین عکس ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے خاکے کو کئی ماہرین تعمیر نے پیش کیا۔ لیکن، غالب خیال یہ ہے کہ اس کا سہرا ایک ایرانی نژاد بھارتی احمد لاہوری کے سر سجتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو نے تاج محل کو 1983 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
تاج محل کی تعمیر کا آغاز 1632 کے لگ بھگ ہوا اور بیس ہزار سے زائد مزدوروں کو اس کام پر مامور کیا گیا۔ ان ماہرین کا تعلق بھارت، ایران، ترکی اور یورپ سے تھا۔ تاج محل اور اس کے ساتھ تعمیر کی جانے والی عمارتوں کا رقبہ بیالیس ایکڑ ہے اور ان کی تکمیل میں بائیس برس لگے۔
ایک اور دلچسپ روایت یہ بھی ہے کہ بادشاہ شاہ جہاں کا ارادہ تھا کہ وہ دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر اپنا مقبرہ تعمیر کرائیں اور اسے ایک پل کے ذریعے تاج محل سے جوڑ دیا جائے۔ لیکن، وہ اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ ان کے صاحبزادے اورنگ زیب عالمگیر نے 1658 میں انھیں تخت سے محروم کرتے ہوئے آگرہ قلعے میں نظر بند کر دیا اور ان کی باقی زندگی اسی قید میں گزری۔
سفید سنگ مر مر سے بنی اس عمارت کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ چمکتی دھوپ ہو یا پھر چاند کی روپہلی روشنی، تاج محل کا نظارہ آپ کی یاد میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔صدیوں سے وقت کا گرم سرد جھیلنے والا تاج محل بھی ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا کرتا آیا ہے۔