بھارت: جیل میں بند کشمیری باغی لیڈر یاسین ملک کے لیے سزائے موت کا مطالبہ

یاسین ملک دو ہزار اٹھارہ سے جیل میں ہیں اورمیڈیا میں ان کی صحت سے متعلق تشویشناک خبریں شائع ہوتی رہی ہیَں۔

بھارت میں انسدادِ دہشت گردی کے تحقیقاتی ادارے نے جمعے کے روز ایک مرتبہ پھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے جیل میں بند باغی لیڈر کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

47 سالہ محمد یاسین ملک، جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ (JKLF)کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ سال انہوں نے دہشت گردی کے لیے رقوم فراہم کرنے کے جرم کا اعتراف کیا تھا اور حکومت کے مہیا کردہ وکیل کی خدمات لینے سے انکار کر دیا تھا۔

SEE ALSO: بھارتی جیل میں قید کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک نے بھوک ہڑتال ختم کر دی

اے ایف پی کے مطابق عدالت نے قومی تحقیقاتی ادارے، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NAI ) کی جانب سے موت کی سزا کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی تھی کہ موت کی سزا ایسے جرم پر دی جاتی ہے جو معاشرے کے "اجتماعی شعور کو دھچکہ پہنچائے"۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعے کے روز این آئی اے نے نئی دہلی میں ہائی کورٹ سے ایک مرتبہ پھر یاسین ملک کے لیے موت کی سزا کی درخواست کی ہے۔

SEE ALSO: سرینگر میں جی 20 کا اجلاس بھارت کے لیے کتنا فائدہ مند رہا؟

قانونی خبروں کی ویب سائٹ بار اینڈ بینچ کے مطابق اس درخواست پر سماعت پیر کے روز ہو گی۔

یاسین ملک کی تنظیم جے کے ایل ایف نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیرمیں 1989 میں آزادی کے حصول کے لیے ایک مسلح مہم کی قیادت کی تھی۔جس کے ردعمل میں بھارت نے بڑے پیمانے پر فوجی قوت کے ساتھ کارروائی کی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

مندروں کی مرمت: کیا بھارتی کشمیر میں پنڈت خاندان لوٹ آئیں گے؟

یاسین ملک 1990 میں اس وقت نمایاں طور پر سامنے آئے جب ان کے گروپ نےمبینہ طور پر اس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ کی بیٹی کو اغوا کر لیا اور بھارتی جیلوں سے اپنے پانچ ساتھیوں کی رہائی کے بدلے میں اس کی رہائی عمل میں آئی ۔

یاسین ملک نے 1994 میں تشدد ترک کر کے آزادی کے لیے پر امن مہم کا آغاز کیا تھا اور بعد کے برسوں میں ان کی دو وزراء اعظم سمیت مختلف بھارتی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

وہ کئی مرتبہ جیل گئے اور 2018 میں انہیں باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔ تب سے وہ جیل میں قید ہیں اور میڈیا میں ان کی صحت سے متعلق تشویشناک خبریں رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔

( اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)