چین اور بھارت میں دوطرفہ تجارت ایک کھرب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق

)

بھارت چاہتا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں توازن بڑھانے کے لیے اس میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ چینی وزیر اعظم کے تین دورہ بھارت کے دوران دوطرفہ تجارت کا فروغ تیری سے معاشی ترقی کرتے ہوئے ان دونوں ایشیائی ممالک کے درمیان ایجنڈے کا ایک اہم موضوع تھا۔

جمعے کے روز چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ کے دورے کے اختتام سے قبل دونوں ممالک نے 2015 تک دوطرفہ تجارتی حجم دگنا کرکے اسے ایک کھرب ڈالر سالانہ تک لے جانے کے ہدف کا تعین کیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ہدف کا حصول ممکن ہے۔ چین پہلے ہی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ لیکن کئی مسائل ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ان دونوں معیشتوں کے تعلقات پراثرانداز ہورہے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ چین کے ساتھ بھارت کا بہت بڑا تجارتی خسارہ ہے، جس کی اس سال 20 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا مطلب ہے مصنوعات اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ، مثال کے طورپر ادویات اور انفارمشین ٹیکنالوجی کو تجارتی دائر سے باہر رکھا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارت چین کو زیادہ تر اپنا خام مال اور دوسری کم مالیت کی چیزیں برآمد کرتا ہے، مثلاً خام لوہا، جب کہ چین اپنی مصنوعات بھارت میں فروخت کے لیے پیش کرتا ہے۔

جمعرات کو جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں چین نے بھارت کے یہ خدشات دور کرنے اور بھارتی برآمدت بڑھانے کے اقدامات کا وعدہ کیا۔

دونوں ممالک نے اپنی معیشتوں میں براہ راست سرمایہ کاری کا حجم بڑھانے پر بھی اتفاق کیا جس کی سطح اس وقت بہت کم ہے۔

بھارتی وزات خارجہ کے ترجمان وشنو پرکشا کا کہنا ہے کہ چین بھارتی انفراسٹرکچر کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت 2012سے 2017 کے درمیان انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنارہی ہے اور بھارت چینی کمپنیوں کی جانب سے اپنے انفراسٹرکچر کے منصوبوں مثلاً ہائی ویز، مسافرگاڑیوں اور توانائی جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرے گا۔

بھارت اور چین کے درمیان اپنے بینکوں کی ایک دوسرے کی معیشتوں میں رسائی بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ دونوں فریقوں کے تجارتی راہنماؤں کا کہناہے توانائی ، ٹیلی مواصلات اور فولاد سازی جیسے شعبوں میں 16 ارب ڈالر کے 50 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

تجارتی ترقی کے سلسلے میں چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ کا کہناتھاکہ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ آزاد تجارت کے معاہدے پر مذاکرات کریں۔

تاہم کئی تجارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ بھارت آزاد تجارت کے معاہدے پر تیار نہ ہو کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس سے بھارتی مصنوعات کو چینی مصنوعات سے سخت مقابلہ کرنا پڑے گا، جسے پہلے ہی عالمی برتری حاصل ہے۔