یاتریوں پر حملے کے بعد کشمیر میں سکیورٹی سخت

فائل

ہلاک ہونے والوں کے تابوتوں اور زخمیوں کو منگل کو بھارتی فضائیہ کے ایک طیارے میں احمد آباد منتقل کیا گیا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندو یاتریوں پر حملے سے پیدا شدہ صورتِ حال کا جائزہ لینے اور سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کے لیے منگل کو نئی دہلی اور سری نگر میں کئی اجلاس منعقد ہوئے۔

سری نگر میں ہونے والے اجلاس میں ریاست کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا، وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی اور بھارت کی بری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت نے بھی شرکت کی۔

بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نئی دہلی میں اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک الگ میٹنگ کی جس میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سمیت اعلیٰ سکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام شریک ہوئے۔

اطلاعات کے مطابق اجلاس میں مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں مسلح باغیوں اور علیحدگی پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے صلاح مشورہ کیا گیا۔

پیر کو ہونے والے حملے کے خلاف منگل کو ہندو اکثریتی جموں خطے میں عام ہڑتال کی گئی۔ اس موقعے پر علاقے میں انٹرنیٹ سروسز معطل رہیں جب کہ کئی مقامات پر مظاہرے بھی ہوئے۔

پیر کی رات کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ میں کیے جانے والے حملے میں سات ہندو یاتری ہلاک اور 19 زخمی ہوئے تھے۔

حکام کے مطابق عسکریت پسندوں نے پولیس کے ایک گشتی دستے اور پھر ایک ناکہ پارٹی پر حملہ کیا تھا اور دونوں مواقع پر پولیس نے جوابی فائرنگ کی۔

اگرچہ پہلے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم دوسرے واقعے میں جو سرینگر۔ جموں شاہراہ پر واقع کھنہ بل کے علاقے میں پیش آیا، طرفین کے درمیان گولیوں کے تبادلے کی زد میں امرناتھ یاتریوں کو لے جانے والی ایک بس آگئی جس میں سوار سات ہندو یاتری ہلاک اور 19 زخمی ہوگئے۔

زخمیوں میں سے تین کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔

ہلاک و زخمی ہونے والے یاتریوں کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے ہے جو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے۔

ہلاک ہونے والوں کے تابوتوں اور زخمیوں کو منگل کو بھارتی فضائیہ کے ایک طیارے میں احمد آباد منتقل کیا گیا۔

فضائیہ کا یہ طیارہ زخمیوں اور لاشوں کو لینے کے لیے بطور خاص نئی دہلی سے سری نگر پہنچا تھا۔

وزیرِاعظم مودی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں پُرامن یاتریوں پر ہونے والے اس بزدلانہ حملے کا سن کر بے حد دُکھ پہنچا ہے۔

نریندر مودی نے مزید کہا کہ بھارت ایسی بزدلانہ حرکتوں اور نفرت کے شیطانی ارادوں سے مرعوب نہیں ہوگا۔

امریکہ اور کئی دوسرے ممالک، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کئی بین الاقوامی تنظیموں اور کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سمیت مقامی سماجی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت اور کشمیر کی روایات اور اقدار کے خلاف قرار دیا ہے۔

کئی کشمیریوں نے سوشل میڈیا پر بھی ہندو یاتریوں کے ہلاک و زخمی ہونے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کشمیری مسلمانوں کے اس ردِ عمل پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ کشمیر میں ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے حملے کی مذمت کی ہے اور کسی نے بھی اس گھناونی حرکت کی تائید نہیں کی جو یہ ثابت کرتا ہے کہ "کشمیریت" ابھی زندہ ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سطحِ سمندر سے 3888 فٹ کی بلندی پر واقع ہندوؤں کی اہم عبادت گاہ "امر ناتھ" کے لیے 40 دن تک جاری رہنے والی یاترا 29 جون کو شروع ہوئی تھی۔

اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد عقیدت مند پہاڑوں پر واقع اس عبادت گاہ کی یاترا کرچکے ہیں جب کہ پیر کو پیش آنے والے واقعے کے باوجود یاترا جاری ہے۔

کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس منیر احمد خان نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کے پاس ایسی معتبر معلومات ہیں جو واقعے میں لشکرِ طیبہ کے جنگجووں کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

لیکن لشکرِ طیبہ نے جسے امریکہ اور بھارت نے چند سال پہلے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا، الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔

تنظیم کے ترجمان ڈاکٹر عبد اللہ غزنوی نے ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کو فون کرکے بتایا ہے کہ امر ناتھ یاتریوں پر حملہ بھارت کی اپنی سراغ رساں اینجسیوں کی ایما پر کیا گیا تاکہ کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو بدنام کیا جاسکے۔