جرمنی کی حکومت نے بھارت کی فیکٹ چیکر ویب سائٹ'آلٹ نیوز' کے شریک بانی محمد زبیر کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں جرمن حکام نے کہا ہے کہ صحافیوں کی تحریر اور تقریر پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی انہیں جیل میں ڈالنا چاہیے۔
جرمن وزارتِ خارجہ کے ترجمان کرسٹیان واگنرنے برلن میں ایک نیوز بریفنگ میں صحافی محمد زبیر کی گرفتاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جرمنی اس مخصوص کیس سے واقف ہے اور نئی دہلی میں جرمن سفارت خانہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پریس کی آزادی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا اطلاق بھارت پر بھی ہوتا ہے۔''بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔لہٰذا ہر کوئی اس سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی کو خاطر خواہ اہمیت دے گا۔''
ترجمان کے مطابق آزاد صحافت کسی بھی سماج کے لیے سود مند ہے ۔ لیکن اس پر پابندیاں عائد کرنا تشویش ناک ہے۔ جرمنی اس معاملے پر یورپی یونین کے اپنے شرکا سے رابطے میں ہے۔ اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بھارت کے ساتھ یورپی یونین کی بات چیت کا حصہ ہے۔
جرمنی کا بیان غیر ضروری ہے: بھارت
دوسری جانب بھارت نے جرمنی کے اس بیان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہےاور اسے غیر ضروری، نامکمل معلومات پر مبنی اور غیرسود مند قرار دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے معمول کی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ''یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے اور یہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ لہٰذا میرا یا کسی اور کا اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔''
SEE ALSO: پیغمبرِ اسلام سے متعلق بیان پر نوپور شرما پوری قوم سے معافی مانگیں: بھارتی سپریم کورٹانہوں نے مزید کہا کہ ''پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں ایک آزاد عدالتی نظام ہے۔ کسی معاملے کی مکمل معلومات کے بغیر اس قسم کے تبصرے سودمند نہیں ہوتے۔ اس لیے ان سے بچنا چاہیے۔''
'جرمن وزیرِخارجہ کا بیان غیرمتوقع ہے'
ادھر مبصرین کا خیال ہے کہ جرمنی عام طور پر ایسے معاملات میں بیان دینے سے گریز کرتا رہا ہے کیوں کہ بھارت سے اس کے مستحکم تعلقات ہیں۔ البتہ یہ پہلا موقع ہے جب جرمنی نے بھارت میں ایک صحافی کی گرفتاری پر ایسا بیان دیا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان غیر متوقع ،غیر سفارتی اور عجیب ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چھ جولائی کو جرمن میڈیا ادارے 'ڈی ڈبلیو 'کے رابرٹ واکر کی ایک ٹویٹ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جرمن وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے محمد زبیر کی گرفتاری پر بھارت پر نکتہ چینی کی ہے۔
ان کے مطابق یہ بہت عجیب سی بات ہے کہ ایک ملک کی وزرات خارجہ کے ترجمان یہ بات بغیر کسی پس منظر کے کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک کے سفارت خانے دوسرے ملکوں کے اندرونی حالات کے بارے میں اپنے ملک کی حکومت کو رپورٹ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ اندرونی رپورٹنگ ہوتی ہے اور اس پر کوئی بھی وزارت بیان نہیں دیتی۔
خیال رہے کہ بھارت میں صحافیوں کی گرفتاری اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے معاملات پرامریکہ اور بعض بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی اظہارِ تشویش کیا جاتا رہا ہے۔مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی جانب سے بھی دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر سالانہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیان کی ویڈیو سامنے لانے والا بھارتی صحافی گرفتار
اسد مرزا کہتے ہیں کہ جرمنی کے اس بیان کو امریکہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے بیانات سے الگ دیکھاجانا چاہیے کیوں کہ اس سے قبل جرمنی نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایسا کوئی بیان سامنے آیا ہے۔ان کے بقول جرمنی بھارت تعلقات کے پیش نظر بھی ایسے بیان کی توقع نہیں تھی۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ صحافیوں کو ان کی تحریر و تقریر کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے۔ عوام کو اس کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی معاملے پر بے خوف ہو کر اپنی رائے دے سکیں۔
بھارت کی جانب سے ردِعمل پراس مرزا کا کہنا تھا کہ بھارتیِ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا بجا ہے کہ محمد زبیر کا معاملہ عدالت میں ہے۔ لہٰذا اس پر عدالت کو ہی فیصلہ دینا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارتی عوام کو بھی عدالت پر اعتماد ہے ۔اگر محمد زبیر پر عائد الزامات ثابت نہیں ہوں گے تو عدالت انہیں بری کر دے گی۔
یہ واضح رہے کہ محمد زبیر وہی صحافی ہیں جنہوں نے حال ہی میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل ترجمان نوپور شرما کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس کے بعد ایک نئے تنازع نے جنم لیا تھا۔ پیغمبرِ اسلام سے متعلق نوپور شرما کے متنازع بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعدمسلم ممالک کی جانب سے شدید احتجاج سامنے آیا تھا۔
ادھر سپریم کورٹ نے اترپردیش کے شہرسیتا پور میں محمد زبیر کے خلاف درج مقدمے میں جمعے کو انہیں پانچ دن کی ضمانت دے دی ہے۔تاہم وہ ابھی جیل سے باہر نہیں آسکیں گے کیوں کہ دہلی میں ان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا گیا ہے اس میں انہیں ضمانت نہیں ملی ہے۔
سیتاپور میں ان کے خلاف مقدمہ ان کے اس ٹویٹ پر قائم ہوا ہے جس میں انہوں نے ٹیلی ویژن پرمذہبی رہنماؤں کی بحث کو نفرت انگیز قرار دیا تھا۔
البتہ دہلی میں درج مقدمے میں انہیں 2018 کی ایک ٹویٹ پر 27 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں محمد زبیر پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور دشمنی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔