بھارتی دارالحکومت دہلی میں میڈیکل کی ایک 23 سالہ طالبہ پر اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعہ کے پانچ سال بعد ہفتے کے روز دہلی سمیت ملک کے کئی شہروں میں خواتین کے خلاف تشدد کے لیے کام کرنے والے گروپ اور کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے عوامی مقامات پر خواتین کے تحفظ کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
'میٹ دی سلیپ' نامی تحریک سے تعلق رکھنے والی خواتین نے مختلف شہروں کے پارکوں میں کچھ دیر کے لیے سونے کا مظاہرہ کیا ، جس کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ خواتین کو اس وقت تحفظ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جب وہ بہت کمزور ہوتی ہیں اور مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔
اجتماعی جنسی زیادتی کا ہدف بننے والی میڈیکل کی طالبہ پر چلتی بس پر چھ افراد نے اس وقت حملہ کیا تھا جب وہ دسمبر 2012 میں اپنے ایک مرد دوست کے ساتھ بس میں سفر کر رہی تھی۔وہ بعد ازاں اس حملے کے دوران نازک اعضا پر لگنے والے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی تھی۔
بھارت میں مسئلہ صر ف یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو جنسی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان واقعات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
دہلی میں قائم جرائم کے اعدادوشمار کے قومی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں جنسی زیادتی کے 1996 مقدمات درج کرائے گیے ۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کی تعداد 1893 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب اس ملک میں خواتین کی آزادی اور ان کے تحفظ کے لیے اٹھے والی آوازیں زیادہ بلند ہو گئی ہیں جہاں جنسی جرائم سے متعلق بات بدنامی کے خوف سے نہیں کی جاتی تھی۔
آل انڈیا پروگریسوو وومن ایسوسی ایشن کی ایک عہدے دار کویتا کرشنن کا کہتی ہیں کہ میرے خیال میں پچھلے پانچ برسوں میں جو سب سے زیادہ اچھی بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب ان واقعات کے خلاف احتجاج کو طاقت مل گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہاہہے۔
حکومت نےشہروں کو محفوظ بنانے کی غرض سے خفیہ نگرانی کے کیمرے نصب کیے ہیں اور فوری مدد کے لیے ہیلپ لائن کے مراکز قائم کر دیے ہیں لیکن سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور خواتین ، لڑکیوں اور حتی کہ بچیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک ہفتے سے بھی کم مدت پہلے شمالی ریاست ہریانہ میں ایک چھ سالہ لڑکی کی نعش ملی جسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی تھی۔ اس واقعہ کا موازنہ 2012 کے بس میں سوار طالبہ کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی سے کیا جا سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کا م کرنے والے سرگرم کارکن جنسی زیادتی کے مقدمات میں بعض موقعوں پر قانون کے استعمال کے طریقہ کار پر بھی پر یشان ہیں۔
اس سال کے شروع میں جنسی زیادتی کے ایک مقدمے میں بالی وڈ کا ایک فلم ساز اس لیے سزا سے بچ گیا تھا کیونکہ جج نے اپنے فیصلے میں زبانی انکار کو لڑکی کی جانب سے جنسی عمل کے لیے رضامندی قرار دیا تھا۔
کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ خواتین کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی تنظیم خواتین کے تحٖفظ اور آزادی کے لیے پوری توانائی سے آواز اٹھاتی رہے گی۔