بھارت کی وفاقی حکومت نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں پِری پیڈ موبائل فون سروسز پر عائد پابندی کو ہٹانے سے انکار کردیا ہے۔
ملک کے اٹارنی جنرل نے نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ کو جو پابندی لگانے کے حکومت کے حالیہ فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کر رہا ہے، بتایا کہ پِری پیڈ موبائل فون سہولت پر یہ پابندی ملک کی سلامتی اور حفاظتی وجوہات کی بنا پر عائد کی گئی ہے اور ہٹایا نہیں جا سکتا۔
عدالت نے بھارتی کشمیر کی علاقائی جماعت نیشنل پینتھرز پارٹی کے سربراہ پروفیسر بین سنگھ کو جنھوں نے حکومت کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے حکومت سے اِس انکار کا جواب دینے کے لیے کہا ہے اور مقدمے کی اگلی سماعت کے لیے 25جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔
درخواست گزار کا استدلال ہے کہ پابندی لگانے کا حکومت کا فیصلہ یک طرفہ اور آمرانہ ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارت کے کسی بھی صوبے میں یہاں تک کہ نکسل وادیوں کے تشدد سے متاثرہ علاقوں اور شمال مشرقی ریاستوں میں جہاں علاحدگی پسند پُر تشدد تحریک چلا رہے ہیں اِس طرح کی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
بھارت کے وزیرِ داخلہ پی چدم برم کا کہنا ہے کہ کشمیر میں مسلمان عسکریت پسند پِری پیڈ موبائل سے سِم کارڈوں تک غلط استعمال کر رہے ہیں، یہاں تک کہ اِنھیں حفاظتی دستوں کے خلاف بم اور بارودی سرنگوں کے دھماکے کرنے میں بھی کام میں لایا جاتا ہے۔ لہذا، پابندی لگانا ناگزیر بن گیا تھا۔