دونوں ملکوں میں اس معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور تاج محل کی سیر کرنے کے لئے ہندوستان جانے اور ہڑپہ کی تہذیب کا مطالعہ کرنے کے لئے پاکستان جانے کے پروگرام بن رہے ہیں۔
کرسچن سائنس مانیٹر
پاکستان اور بھارت کے مابین ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے پر جو معاہدہ ہوا ہے، ا ُسے کرسچن سائنس مانیٹر نے تاریخی قرار دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین ٓاخری ایسا سمجھوتہ1971 کی پاک ہند جنگ کے تناظر میں 1974 میں طے پایا تھا ۔ لیکن اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنا نہائت ہی مشکل ہو گیا تھا۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے ۔ کہ اب اس نئے معاہدے سے سیاحت کے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ دس سے لے کر پچاس افراد تک کی ٹُکڑیوں میں لوگ رجسٹر شدہ ٹورسٹ ایجنسیوں کی وساطت سے ایک دوسرے کے ملک کی سیاحت پر جا سکتے ہیں۔ چنانچہ اخبار نے فیس بُک پر یہ بات نوٹ کی ہے کہ دونوں ملکوں میں اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔اور تاج محل کی سیر کرنے کے لئے ہندوستان جانے اور ہڑپہ کی تہذیب کا مطالعہ کرنے کے لئے پاکستان جانے کے پروگرام بن رہے ہیں ۔
کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے کہ نئے معاہدے سے خاص طور پر اُن خاندانوں کو سہولت ہو جائے گی، جن کے افراد دونوں ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسے ویزوں کی میعاد تیس دن سے بڑھا کر چھ ماہ کر دی گئی ہے اور شہروں کی تعداد تین سے بڑھا کرپانچ کر دی گئی ہے۔
نئے معاہدے کے تحت اب 65 سال سے زیادہ عمر کے یا بارہ سال سے کم عمر کے شہریوں کو پہلےسے ویزالینے کے بجائے پہنچنے پر ویزا دیا جاسکے گا ، اس کا مقصد ان لوگوں کو سہولت فراہم کرنا ہے جنہیں ان شہروں میں جانےکی تمنّا ہو، جہاں سے انہوں نے تقسیم کے وقت ہجرت کی تھی۔
ویزوں کے بارے میں یہ سمجھوتہ دونوں ملکوں کے مابین امن کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے بعد طے پایا ہے یہ عمل2008 میں ہندوستان نے مُمبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد منسوخ کر دیا تھا،کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے کہ یہ معاہدہ سب زیادہ ٹھوس معاہدوں میں سے ایک مانا جائے گا۔
رائیٹرز آپی ایس او ایس
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزےکے مطابق ، جسے، رائیٹڑز ٓئی پی ایس او ایس نے جاری کیا ہے، شارلٹ، کیرو لائنا میں ڈیموکریٹک کنونشن کے بعد صدر اوباما کی عوامی حمائت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور انہیں اپنے ری پبلکن مد مقابل مٹ رامنی کے مقابلے میں اس سے جو معمولی سی سبقت حاصل تھی۔ اب بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کے مطابق چار دن پہلے کے مقابلے میں اب مٹ رامنی پر اوباما کی سبقت چار پوائنٹ ہے۔جن ممکنہ ووٹروں نے اس استصواب میں شرکت کی، ان میں سے 47 فی صد کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات آج ہوتے ہیں ،تو وہ اوباما کو ووٹ دیں گے۔ اس کے مقابلے میں رامنی کے حامیوں کا تناسب43 فی صد تھا ۔
لیکن اس استصواب کے منتظمین کے مطابق پارٹی کنونشن کے بعد اس قسم کا رجحان عام طور سے دیکھنے میں آتا ہے۔لیکن ایسااس حقیقت کے باوجود ہوا ہے کہ اگست کے مہینے میں روزگار کے مواقع بڑھنے کی شرح بُہت سُست رہی۔ اور مہینے کے دوران روز گار کے صرف 98 ہزار نئے مواقع پیدا ہوئے ۔ پچھلے ہفتے ری پبلکن کنونشن ختم ہوا تو اس وقت مٹ رامنی کو بھی براک اوباما پر اسی تناسُب سے برتری حاصل ہو گئی تھی ۔ لیکن استصواب کرانے والوں کے مطابق چونکہ اب مزید کوئی کنونشن نہیں ہونے والا۔ اس لئے اُن کا خیال ہے ، کہ صدر اوباما کی یہ سبقت برقرار رہےگی، لیکن یہ سبقت کب تک برقرار رہتی ہے ، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
نیویارک نیوز ٹوڈے
ادھر نیو یارک کے اخبار نیوز ڈے کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے کنونشن ختم ہو گئے ہیں ، لیکن ووٹروں کو ابھی تک وہ پیغامات سننے کو نہیں ملے ۔ جو دونوں صدارتی امید واروں کی طرف سے آنےچاہئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے اپنے جو مقاصد بیان کئے ہیں ، وہ قابل تعریف ضرور ہیں ، یعنی قومی معیشت کو تقویت پہنچانا ، یا بجٹ متوازن کرنا ، یہ وہ مقاصد ہیں جن کی صدر اوباما اور ڈیموکریٹ بھی حمائت کریں گے ، لیکن اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے ووٹروں کو یہ نہیں بتایا کہ وہ کس طرح سے یہ مقاصد حاصل کریں گے ، خاس طور پرروزگار کے ایک کروڑ بیس لاکھ مواقع پیدا کرنا ، اخراجات میں پانچ ارب ڈالر کی کٹوتی کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی اخراجات میں اضافہ بھی کرنا ، اور پھر اس پر مُستزاد سوشل سیکیورٹی اور میڈیک ایڈ کو بھی محفوظ رکھنا۔
اس کے مقابلے میں بر سر اقتدار صدر کا کام مختلف ہے ، وُہ امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانا چاہتے ہیں۔ کاربن گیس کے اخراج کمی کرنا چاہتے ہیں،متبادل توانائی کوتیزی فروغ دینا چاہتے ہیں، اور بنیادی ڈھانچے کووسعت دینا چاہتے ہیں ، تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اس کے علاوہ وہ ٹیکسوں کے نظام کو بھی آسان بنانا چاہتے ہیں، اخبار کہتا ہے کہ ان کے پہلے دو سال ، جب انہیں کانگریس کی حمائت حاصل تھی صحت کی نگہداشت کا قانون منظور کرانے میں گذر گئے۔جو کہ ایک مستحسن کابات ہے، لیکن باقی مقاصد جوں کے توں رہے ، اور کام ٹھپ ہے کیونکہ ایوان نمائندگاں پر ری پبلکن قبضہ ہے ، جب کہ سینیٹ میں ان کے پاس مطلوبہ ساٹھ ووٹ نہیں ہیں ۔
پاکستان اور بھارت کے مابین ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے پر جو معاہدہ ہوا ہے، ا ُسے کرسچن سائنس مانیٹر نے تاریخی قرار دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین ٓاخری ایسا سمجھوتہ1971 کی پاک ہند جنگ کے تناظر میں 1974 میں طے پایا تھا ۔ لیکن اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنا نہائت ہی مشکل ہو گیا تھا۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے ۔ کہ اب اس نئے معاہدے سے سیاحت کے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ دس سے لے کر پچاس افراد تک کی ٹُکڑیوں میں لوگ رجسٹر شدہ ٹورسٹ ایجنسیوں کی وساطت سے ایک دوسرے کے ملک کی سیاحت پر جا سکتے ہیں۔ چنانچہ اخبار نے فیس بُک پر یہ بات نوٹ کی ہے کہ دونوں ملکوں میں اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔اور تاج محل کی سیر کرنے کے لئے ہندوستان جانے اور ہڑپہ کی تہذیب کا مطالعہ کرنے کے لئے پاکستان جانے کے پروگرام بن رہے ہیں ۔
کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے کہ نئے معاہدے سے خاص طور پر اُن خاندانوں کو سہولت ہو جائے گی، جن کے افراد دونوں ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسے ویزوں کی میعاد تیس دن سے بڑھا کر چھ ماہ کر دی گئی ہے اور شہروں کی تعداد تین سے بڑھا کرپانچ کر دی گئی ہے۔
نئے معاہدے کے تحت اب 65 سال سے زیادہ عمر کے یا بارہ سال سے کم عمر کے شہریوں کو پہلےسے ویزالینے کے بجائے پہنچنے پر ویزا دیا جاسکے گا ، اس کا مقصد ان لوگوں کو سہولت فراہم کرنا ہے جنہیں ان شہروں میں جانےکی تمنّا ہو، جہاں سے انہوں نے تقسیم کے وقت ہجرت کی تھی۔
ویزوں کے بارے میں یہ سمجھوتہ دونوں ملکوں کے مابین امن کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے بعد طے پایا ہے یہ عمل2008 میں ہندوستان نے مُمبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد منسوخ کر دیا تھا،کرسچن سائینس مانٹر کہتا ہے کہ یہ معاہدہ سب زیادہ ٹھوس معاہدوں میں سے ایک مانا جائے گا۔
رائیٹرز آپی ایس او ایس
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزےکے مطابق ، جسے، رائیٹڑز ٓئی پی ایس او ایس نے جاری کیا ہے، شارلٹ، کیرو لائنا میں ڈیموکریٹک کنونشن کے بعد صدر اوباما کی عوامی حمائت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور انہیں اپنے ری پبلکن مد مقابل مٹ رامنی کے مقابلے میں اس سے جو معمولی سی سبقت حاصل تھی۔ اب بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کے مطابق چار دن پہلے کے مقابلے میں اب مٹ رامنی پر اوباما کی سبقت چار پوائنٹ ہے۔جن ممکنہ ووٹروں نے اس استصواب میں شرکت کی، ان میں سے 47 فی صد کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات آج ہوتے ہیں ،تو وہ اوباما کو ووٹ دیں گے۔ اس کے مقابلے میں رامنی کے حامیوں کا تناسب43 فی صد تھا ۔
لیکن اس استصواب کے منتظمین کے مطابق پارٹی کنونشن کے بعد اس قسم کا رجحان عام طور سے دیکھنے میں آتا ہے۔لیکن ایسااس حقیقت کے باوجود ہوا ہے کہ اگست کے مہینے میں روزگار کے مواقع بڑھنے کی شرح بُہت سُست رہی۔ اور مہینے کے دوران روز گار کے صرف 98 ہزار نئے مواقع پیدا ہوئے ۔ پچھلے ہفتے ری پبلکن کنونشن ختم ہوا تو اس وقت مٹ رامنی کو بھی براک اوباما پر اسی تناسُب سے برتری حاصل ہو گئی تھی ۔ لیکن استصواب کرانے والوں کے مطابق چونکہ اب مزید کوئی کنونشن نہیں ہونے والا۔ اس لئے اُن کا خیال ہے ، کہ صدر اوباما کی یہ سبقت برقرار رہےگی، لیکن یہ سبقت کب تک برقرار رہتی ہے ، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
نیویارک نیوز ٹوڈے
ادھر نیو یارک کے اخبار نیوز ڈے کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے کنونشن ختم ہو گئے ہیں ، لیکن ووٹروں کو ابھی تک وہ پیغامات سننے کو نہیں ملے ۔ جو دونوں صدارتی امید واروں کی طرف سے آنےچاہئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے اپنے جو مقاصد بیان کئے ہیں ، وہ قابل تعریف ضرور ہیں ، یعنی قومی معیشت کو تقویت پہنچانا ، یا بجٹ متوازن کرنا ، یہ وہ مقاصد ہیں جن کی صدر اوباما اور ڈیموکریٹ بھی حمائت کریں گے ، لیکن اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے ووٹروں کو یہ نہیں بتایا کہ وہ کس طرح سے یہ مقاصد حاصل کریں گے ، خاس طور پرروزگار کے ایک کروڑ بیس لاکھ مواقع پیدا کرنا ، اخراجات میں پانچ ارب ڈالر کی کٹوتی کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی اخراجات میں اضافہ بھی کرنا ، اور پھر اس پر مُستزاد سوشل سیکیورٹی اور میڈیک ایڈ کو بھی محفوظ رکھنا۔
اس کے مقابلے میں بر سر اقتدار صدر کا کام مختلف ہے ، وُہ امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانا چاہتے ہیں۔ کاربن گیس کے اخراج کمی کرنا چاہتے ہیں،متبادل توانائی کوتیزی فروغ دینا چاہتے ہیں، اور بنیادی ڈھانچے کووسعت دینا چاہتے ہیں ، تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اس کے علاوہ وہ ٹیکسوں کے نظام کو بھی آسان بنانا چاہتے ہیں، اخبار کہتا ہے کہ ان کے پہلے دو سال ، جب انہیں کانگریس کی حمائت حاصل تھی صحت کی نگہداشت کا قانون منظور کرانے میں گذر گئے۔جو کہ ایک مستحسن کابات ہے، لیکن باقی مقاصد جوں کے توں رہے ، اور کام ٹھپ ہے کیونکہ ایوان نمائندگاں پر ری پبلکن قبضہ ہے ، جب کہ سینیٹ میں ان کے پاس مطلوبہ ساٹھ ووٹ نہیں ہیں ۔