(انشمن آپٹے، ویب ڈیسک) پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر دہشت گردی کے معاملے پر ایک دوسرے کے ملکوں پر سخت تنقید کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کے وزیراعظم کو ’گجرات کے قصاب‘ کا نام دیا ہے جب کہ جے شنکر نے پاکستان کو خطے اور خطے سے باہر دہشت گردی کا ایکسپورٹر قرار دیا ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں گجرات کا قصاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت گاندھی کے قاتلوں کے نظریات پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور مارے جانے پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بن لادن کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا اور وہ مارے جا چکے ہیں۔ مگر ان کے بقول گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث شخص بھارت کا وزیراعظم بن چکا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے یہ ریمارکس اقوام متحدہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایسے وقت میں دیے ہیں جب دونوں ملک دہشت گردی کے مسئلے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
SEE ALSO: بلاول کا دورۂ واشنگٹن: ’پاکستان معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے امریکہ کی مدد چاہتا ہے‘بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر نے گزشتہ روز سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کی جانب سے لاہور دھماکوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی اور اس حوالے سے امریکہ کی سابق وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کے بیان کا حوالہ دیا کہ جو لوگ اپنے صحن میں سانپ پالتے ہیں، یہ سانپ ضروری نہیں کہ پڑوسیوں کو ہی ڈسیں گے، پالنے والوں کو بھی ڈس سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے نیویارک میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت گاندھی کے نظریات سے نہیں بلکہ ان کے بقول ہٹلر کے نظریات پر یقین رکھتی ہے۔
پاکستانی وزیرخارجہ نے دعوی کیا کہ پاکستان کے اندر دہشت گرد عناصر کو ہمسایہ ملک سے معاونت مل رہی ہے اور بلوچستان میں عدم استحکام کے لیے غیر ملکی عناصر سرگرم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف موثر جنگ لڑی ہے اور فیٹف جیسے فورم نے پاکستان کے اقدامات کی توثیق کی ہے۔
بلاول بھٹو نے پاکستان کے اس مؤقف کو بھی دہرایا کہ جوہر ٹاؤن لاہور دھماکے میں بھارتی مداخلت کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
SEE ALSO: سلامتی کونسل کا اجلاس: بھارت کی چین اور پاکستان پر نام لیے بغیر تنقیدبھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر نے گزشتہ روز اس سوال پر کہ بھارت اور پاکستان کب تک ایک دوسرے کو دہشت گردی کا الزام دیتے رہیں گے، کہا کہ یہ سوال پاکستان کے وزیرخارجہ سے کیا جانا چاہیے جو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کب تک دہشت گردی پر عمل جاری رکھے گا۔
’’دنیا بے وقوف نہیں ہے اور اس بات کو نہیں بھولی اور آئے روز ان ملکوں اور تنظیموں کا نام لے کر بتا رہی ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔‘‘
بھارت کے وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان بحث کا رخ تبدیل نہیں کر سکتا۔
’’ آپ اس کو چھپا نہیں سکتے اور لوگوں کو گمراہ نہیں کر سکتے۔ میرا مشورہ ہے کہ اپنے اعمال درست کیجیے اور اچھے پڑوسی بنیے اور اس کام میں حصہ ڈالیے جو دنیا کے باقی ممالک کر رہے ہیں جیسے اقتصادی ترقی وغیرہ۔‘‘
پاکستان کے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا کو دہشت گردی کے لیے مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، دہشت گردی کا کسی مذہب یا خطے سے تعلق نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرخارجہ نے پاکستان کے اندر سیلاب کے بعد انفراسٹرکچر کی صورت حال، روس کے ساتھ تیل کی خرید کے امکانات، افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور ایران میں مظاہروں اور بالخصوص پاکستان امریکہ تعلقات پر بھی سوالات کے جواب دیے۔
پاکستان امریکہ تعلقات کی موجودہ ہئیت اور گزشتہ چند ماہ کے دوران ان تعلقات میں کسی نوعیت کی تبدیلیوں سے متعلق وائس آف امریکہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ تعلقات باہمی احترام کے ساتھ آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
’’جب سے نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی ہے، ہم امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور جہاں فاصلے ہیں، ان کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ اعلی سطحی رابطوں میں اضافہ ہوا ہے اور تعلقات کی جہتوں میں بھی وسعت آئی ہے۔
SEE ALSO: شواہد ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت ہے: رانا ثناء اللہ کا الزام’’امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پہلے افغانستان پر مرکوز تھے۔ وزیر خارجہ بلنکن کے ساتھ ملاقات کے بعد اس معمول کو تبدیل کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات ننانوے فیصد دہشت گردی کے مسئلے کے گرد گھومتے تھے۔ اب صحت، ماحول، تجارت ان موضوعات پر تعلقات استوار ہو رہے ہیں‘‘۔
پاکستان کے وزیرخارجہ نے بتایا کہ باہمی احترام کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ راتوں رات بڑی تبدیلی آ گئی ہے لیکن تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔
ایران میں جاری مظاہروں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ احتجاج جمہوری حق ہے مگر اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے ان خواتین کو بہادر قرار دیا جن کا احتجاج ملک کو اصلاحات کی جانب لے جا سکتا ہے۔
’’ایران کی خواتین کے مظاہرے ممکنہ اصلاحات کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اور یہ بہادر خواتین کی کامیابی ہے جو مظاہرے کر رہی ہے۔‘‘
روس سے تیل خریدنے کے معاملے پر بلاول بھٹو نے واضح انداز میں بتایا کہ فی الوقت پاکستان کو روس سے رعایتی نرخوں پر تیل نہیں مل رہا۔
SEE ALSO: 'گوگل' نے پاکستان میں دفتر کھولنے کے لیے رجسٹریشن کرا لی’’روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، گندم لینے پر بات چل رہی ہے۔ بھارت میں روس کے تیل کو پراسس کرنے کے لیے انفراسٹرکچر موجود ہے۔‘‘
پاکستان کے وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے گزشتہ ہفتے دعوی کیا تھا کہ روس نے پاکستان کو سستے داموں تیل فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے بھی وائس آف امریکہ کے استفسار پر کہا تھا کہ فی الوقت روس کے تیل کی برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ہر ملک اپنی ضروریات اور مفادات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کر سکتا ہے۔
نیویارک پریس کانفرنس میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے دنیا پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں موجودہ حکومت سے بات چیت کرے۔
وزیرخارجہ نے افغانستان کے اندر خواتین کی تعلیم سے متعلق کہا کہ وہاں پرائمری تعلیم کی اجازت ہے اور انتظار ہے کہ اعلی سطحی تعلیم کی بھی اجازت دی جائے۔