مکالمے کے ذریعے پاک بھارت مسائل کا حل نکل سکتا ہے: سابق سیکرٹری بھارتی خارجہ امور

مکالمے کے ذریعے پاک بھارت مسائل کا حل نکل سکتا ہے: سابق سیکرٹری بھارتی خارجہ امور

’ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، اپنے دونوں ملکوں میں اتنے مواقع ہیں کیا اُنھیں استعمال نہیں کریں گے؟مجھے لگتا ہے کہ قدم بہ قدم آگے بڑھیں توبات چیت کے ذریعے، ہوسکتا ہے کہ ایک دِن کشمیر کا مسئلہ بھی سلجھ جائے‘

بھارتی خارجہ امور کے ایک سابق سکریٹری، اے ایم رام نے کہا ہےکہ باہمی بات چیت کے ذریعےپاکستان اور بھارت کے’ تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن فوری نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔‘

جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ کے ’اِن دِی نیوز‘ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ تجارت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے۔

اُن کے بقول، کشمیر کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور پرانا معاملہ ہے جس کے حل میں وقت درکار ہوگا۔

اُن کے الفاظ میں: ’جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، اپنے دونوں ملکوں میں اتنے مواقع ہیں کیا اُنھیں استعمال نہیں کریں گے؟ مجھے لگتا ہے کہ قدم بہ قدم آگے بڑھیں توبات چیت کے ذریعے، ہوسکتا ہے کہ ایک دِن کشمیر کا مسئلہ بھی سلجھ جائے۔‘

اے ایم رام نے کہا کہ دونوں ملکوں کے آزمودہ سفارتکار یہی چاہیں گے کہ مکالمے کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔اُنھوں نے کہا کہ ’دونوں ممالک کو بات چیت کرنی پڑے گی۔ اگر تیاری کے بغیر ہم سیاسی سطح پر بات چیت کریں گے تو شاید اُس کا نتیجہ ٹھیک نہ نکلے۔ ‘

اِس سلسلے میں اُنھوں نے دونوں ملکوں کے خارجہ ، داخلہ اور تجارت کے سکریٹریوں کی بات چیت کا ذکر کیا، اور کہا کہ ’تجارت اور معاشی لنکیجز‘ کے بڑھنے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا، اور یہ بات امن کے فروغ کے لیے ایک انشورنس کا کام دے گی۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ تجارت کے توازن کوپاکستان کے حق میں بہتر بنانے کے لیےکیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تو بھارت کے سابق سکریٹری خارجہ امور نے کہا کہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو پاکستان بھارت کو برآمد کر سکتا ہے مثلاً پیاز اورنجی سیکٹر کے ذرائع سےحاصل ہونے والی اضافی بجلی ، ساتھ ہی پاکستان بھارت سے چائے اور چینی خرید سکتا ہے۔ اِس حوالے سے، اُنھوں نے پاکستان کے چیمبر آف کامرس کی طرف سے کیے گئے کام کا حوالہ دیا۔ اُن کے بقول، تجارت کو فروغ دینے میں دونوں ملکوں کو ہر طرح سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔

دوسرے، اُن کا کہنا تھا کہ ایران سے تیل کی راہداری پر جس میں زمین، سکیورٹی اور انفرا اسٹرکچر کی فراہمی سے پاکستان کو سالانہ 500 سے0 100ملین ڈالر کی آمدنی ہوسکتی ہے۔

لیکن، اُن کے بقول، اِس کے لیے، ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی، جوں جوں معاشی لنکیجز بڑھیں گے، اِس کے فائدے کا اثر پاکستان کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات پر بھی پڑے گا۔

تفصیل کےآڈیورپورٹ سنیئے: