بھارتی وزیر خارجہ نے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف سے ملاقات میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے پیش کیے جانے والے ایجنڈے میں سب سے اوپر دہشت گردی کے واقعات ہوں گے ۔
نیویارک —
بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی اتوار کو ہونے والی ملاقات سے پہلے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اس ملاقات میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے پیش کیے جانے والے ایجنڈے میں سب سے اوپر دہشت گردی کے واقعات ہوں گے۔
خاص طور پر پاکستان سے یہ سوال پوچھا جائے گا کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان کو جو شواہد فراہم کیے تھے ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اور کئی ایسے لوگوں کو جنہیں حراست میں لینا چاہیے تھا کیوں کھلا چھوڑا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ خورشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی سویلین اور فوجی حکومت کا ایجنڈا ایک ہی ہے تو پھر بھارت کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی فوج اور اس کا خفیہ ادارہ وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت سے بات چیت کی کوششوں کو "سبوتاژ" کررہی ہیں۔
ان کے بقول پاکستانی وزیراعظم بھارت سے تعلقات کے بارے میں موزوں باتیں کر رہے ہیں لیکن انھیں ان اداروں کو گرفت میں رکھنا چاہیے۔
"ہمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی تمام ایجنسیاں ایک طرح سے سوچ رہی ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو اس قسم کے واقعات نہ ہوتے جو ہو رہے ہیں۔’’
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور وہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے اور وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسوں تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔
مسٹر خورشید نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے خطاب میں پاکستان پر کڑی تنقید کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کی پاکستان سے جائز شکایات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کا کچھ مداوا ہو تب ہی نیا آغاز ممکن ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا مکمل انٹرویو سننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
خاص طور پر پاکستان سے یہ سوال پوچھا جائے گا کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان کو جو شواہد فراہم کیے تھے ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اور کئی ایسے لوگوں کو جنہیں حراست میں لینا چاہیے تھا کیوں کھلا چھوڑا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ خورشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی سویلین اور فوجی حکومت کا ایجنڈا ایک ہی ہے تو پھر بھارت کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی فوج اور اس کا خفیہ ادارہ وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت سے بات چیت کی کوششوں کو "سبوتاژ" کررہی ہیں۔
ان کے بقول پاکستانی وزیراعظم بھارت سے تعلقات کے بارے میں موزوں باتیں کر رہے ہیں لیکن انھیں ان اداروں کو گرفت میں رکھنا چاہیے۔
"ہمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی تمام ایجنسیاں ایک طرح سے سوچ رہی ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو اس قسم کے واقعات نہ ہوتے جو ہو رہے ہیں۔’’
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور وہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے اور وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسوں تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔
مسٹر خورشید نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے خطاب میں پاکستان پر کڑی تنقید کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کی پاکستان سے جائز شکایات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کا کچھ مداوا ہو تب ہی نیا آغاز ممکن ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا مکمل انٹرویو سننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5