عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان اور بھارت کی باہمی تجارت کا سالانہ حجم اس وقت لگ بھگ دو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ تاہم، اگر اسلام آباد اور دہلی باہمی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو دوطرفہ تجارت کی سطح کو 37 ارب ڈالر تک بڑھانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
یہ بات حال ہی میں جاری کردہ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے، جس میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کے درمیان تجارت کے وسیع ممکنہ مواقع کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیا کے دو بڑوں ملکوں پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے ناصرف دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر منفی اثر پڑ رہا ہے بلکہ خطے کی تجارت بھی اس وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں وہ رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق براہ راست تجارتی معاملات اور غیر تجارتی معاملات سے ہے اور جب تک ان کو دور نہیں کر لیا جاتا، خطے کے ملکوں، خاص طور پر پاک بھارت تجارت کے حجم میں اضافہ ممکن نہیں۔
پاکستان کی تجارتی برادری کے اہم رکن اور پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے سربراہ زبیر موتی والا نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے کہا کہ "ورلڈ بنک نے کہا ہے کہ پاک بھارت تجارت کا حجم 37 ارب ڈالر ہو سکتا ہے جو کہ میری رائے میں یہ انداز بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے‘‘۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ اگر دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو یہ امکان نظر آئے تو بہتر ہوگا؛ اور میں سمجھتا کہ پاک بھارت تجارت میں اضافہ ہونا چاہیے جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔"
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان اور بھارت کے پہلے سے تعطل کے شکار سفارتی تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔
اقتصادی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے پاک بھارت تعلقات میں مسلسل تناؤ کی وجہ سے دنوں ملک تجارتی تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار نہیں کر سکے ہیں۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تجارت سے متعلق معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی ہے اور جب تک یہ معاملات حل نہیں ہوتے، جن کا (عالمی بینک کی) رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے، وہ حجم اس وقت حاصل نہیں ہو سکتا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاک بھارت تجارت نئی دہلی کے حق میں ہے؛ جس کی ایک بڑی وجہ، ان کے بقول،’’نان ٹیرف رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
دوسری طرف، زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی خوشحالی کا براہ راست تعلق خطےکے ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ میں مضمر ہے۔
تاہم، سلمان شاہ کا کہنا ہے یہ اسی صورت ممکن ہے جب اسلام آباد اور نئی دہلی تجارت سے جڑے مسائل کو حل کرنےکی سنجیدہ کوشش کریں، اور ان کے بقول، موجودہ حالات میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی رابطوں کا کوئی امکان نہیں تو اس صورت میں تجارت سے متعلق امور کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔